Muhammad is not the father of [any] one of your men, but [he is] the Messenger of Allah and last of the prophets. And ever is Allah, of all things, Knowing. { Translation } مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَ لَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ * وَ كَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

انبیاء و رسل کے وارث علمائے ربانین

ابو محمد December 15, 2024 182 views 1 likes

Like Article

امیر المجاہدین نور اللہ مرقدہ کی ایک تقریر نے سماعتوں کو تازگی اور ایمان کو جلاء بخشی، فتنہ کے دور میں حق کو واضح کر کے استقامت اور دوامت کا جذبہ عطا فرمایا تو راقم نے مناسب سمجھا کہ اس پہلو کو عوام الناس میں تحریری شکل میں پیش کر دینا چاہیے۔ امیر المجاہدین نور اللہ مرقدہ نے اپنی اس تقیریر میں جہاں وضاحت فرمائی کہ دین کے نمائندہ فقط علمائے اہلسنت ہو سکتے ہیں تو ساتھ ہی وراثین علمِ نبوت ﷺ کی نشاندہی بھی فرما دی۔ سیدنا رسول اللہ ﷺ کا وارث "عالمِ ربانی" ہوتا ہے نہ کہ جاہل  و مداہن خطیب اور ظاہری علم کے حامل بے عمل مفتیان۔ امیر المجاہدین نور اللہ مرقدہ نے اپنی تقریر میں علمائے ربانیین کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ؛

"جب عالمِ ربانی پریشان ہوتا ہے تو سیدنا رسول اللہ ﷺ بھی پریشان ہو جاتے ہیں"۔

اللہ اکبر کبیرا

وہ مسلمان جو اس آخر الزمان میں پھیل چکے جہالت اور وہن کے فتنہ کے ہوتے ہوئے عالمِ کفر کے خلاف سیاسی طور پر میدانِ عمل میں ہیں انکو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔ ہر جبے قبے والا اور یا رسول اللہ ﷺ کا نعرہ لگانے والا نہ عالمِ ربانی ہوتا ہے نہ سیدنا رسول اللہ ﷺ کا حقیقی وارث ہوتا ہے، نہ ہی دین کا ترجمان ہوتا ہے، نہ ہی مسلمانوں کیلئے مشعلِ راہ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی اہلسنت ہو سکتا ہے۔ امیر المجاہدین نور اللہ مرقدہ کے پیغام کو حقیقی معنوں میں بدرجہ اتم سمجھنے کیلئے قارئین و سامعین کیلئے عالمِ ربانی  کے تعارف کو جاننا انتہائی ناگزیر ہے تاکہ مجدد العصر کے پیغام کو حقیقی معنوں میں سمجھا جا سکے۔ 

عالمِ ربانی کی اصطلاح قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ آلِ عمران [سورۃ 3] کی آیت 79 سے ماخوذ ہے جہاں اللہ عز و جل  نے فرمایا کہ؛

مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰـكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ

ترجمہ کنز الایمان: کسی آدمی کا یہ حق نہیں کہ اللہ اُسے کتاب اور حکم و پیغمبری دے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہوجاؤ ہاں یہ کہے گا کہ اللہ والے ہوجاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس سے کہ تم درس کرتے ہو

اس آیت مبارک میں لفظ "رَبّٰنِیّٖنَ" ذکر ہوا ہے جو عالمِ ربانی کے لقب کا ماخذ اور اوصاف کا تعین کرنے والا ہے۔ اللہ رب العزت نے یہ وصف انبیاء ورسل کیلئے بیان فرمایا ہے جنہیں کتاب عطا فرمائی گئی، پییغمبری دی گئی۔ لہٰذا وارثینِ انبیاء میں اس وصف کا ہونا ہی وراثت کے استحقاق کا تعین کرنے والا ہے۔  تفسیر قرطبی میں اس آیت مبارک کے تحت لفظ " رَبّٰنِیّٖنَ" کا معانی حضرت ابن عباسؓ سے یہ مروی ہوا ہے کہ؛

"رَبّٰنِیّٖنَ کا واحد رَبّٰنِی ہے یہ الرب کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو صغارِ علم (بنیادی علوم) کے ساتھ انکے بڑا ہونے سے پہلے تربیت کرتا ہے، گویا کہ وہ (انسانوں کیلئے) امور کو آسان بنانے میں رب سبحانہ و تعالیٰ کی اقتدا کرتا ہے"۔

تفسیر خزائن العرفان میں آیا ہے کہ؛

"ربانی کے معنی فقیہ اور عالم با عمل اور نہایت دیندار کے ہیں"۔

قرآن مجید فرقان حمید میں عالمِ ربانی کے عمل کی منہج و وصف، "تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ" بیان فرمایا گیا ہے۔ تفسیر خزائن العرفان میں اس کے تحت آیا ہے کہ؛

"اس سے ثابت ہوا کہ علم و تعلیم کا ثمرہ یہ ہونا چاہیے کہ آدمی اللہ والا ہو جائے جسے علم سے یہ فائدہ نہ ہوا اس کا علم ضائع اور بیکار ہے"۔

تبیان القرآن میں مفسرِ قرآن و شارح بخاری علامہ غلام رسول سعیدی نور اللہ مرقدہ اس آیت مبارک کے تحت علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد المالکی قرطبی کے حوالہ سے لائے ہیں کہ؛

"ربانی اس شخص کو کہتے ہیں جو رب کے دین کا علم ہو اور اپنے علم کے  مطابق عمل کرے، کیونکہ جب وہ علم کے مطابق عمل نہیں کرے گا تو وہ عالم نہیں ہو گا"۔

علامہ غلام رسول سعیدی مزید کئی وضاحتوں کے ساتھ یہ وضاحت بھی لائے ہیں کہ نحاسؒ نے فرمایا ہے کہ؛

"ربانی وہ عالم ہے جو سیاست  پر نظر رکھتا ہے"۔

ابو عبدہؒ نے فرمایا کہ؛

"ربانی وہ شخص ہے جو حلال اور حرام اور امر اور نواہی کا عالم ہو اور اس امت کی خبروں اور ماکان و مایکون کا عارف ہو"۔

تفسیر قرطبی میں اسی آیت مبارک کے تحت نحاسؒ کا مفصل قول آیا ہے کہ؛

"کیونکہ احبار تو علماء ہی ہیں اور ربانی وہ ہوتا ہے جو علمِ بصیرت کو سیاست و دانائی کے ساتھ جمع کرتا ہے، یہ عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے: رب امر الناس بربہ، یہ تب کہا جاتا ہے جب وہ لوگوں کے معاملہ کی اصاح کر دے اور اس کے ساتھ قائم ہو جائے"۔

غرضیکہ قرآن مجید فرقان حمید کی تفاسیر عالمِ ربانی کی توصیف و شان سے بھری پڑی ہیں، اور کیسے ہی وہ علماء ہوں گے جن کی توصیف کو اللہ رب العزت نے اپنے منشاء سے کلام اللہ کا حصہ بنا کر امر کر دیا۔ اللہ رب العزت ہمارے علمائے ربانین پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں ان کے عطا کردہ مشن پر قائم و دائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حاصل کلام تمام قارئین کے لئے بیان کئے دینا چاہتا ہوں انبیاء و رسل کا حقیقی وارث عالمِ ربانی ہوتا ہے جو امت کے امور کی اصلاح کرے، جو علمِ بصیرت کو سیاست و دانائی کےساتھ جمع کرے، جو لوگوں کو اللہ والے بنا دے، دین کی تجدید کرے، اقامتِ دین کی راہ ہموار کرے، جو ممکنہ خطرات اور آمدہ چیلنجز کے مطابق امتِ مسلمہ کی پہلے سے تربیت کا سامان عطا کرے۔

لہٰذا ایسے علماء جو ظاہر بین ہیں، جو طاغوتی حکومتوں کے بت کدے کے سومنات ہیں، جو مداہنت اور چاپلوسی کے مینار ہیں، جو باطل کے نظامِ حکم کے ساتھ صلح کلیت قائم کئے ہوئے ہیں، جو غیر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے  کیلئے حقِ تعالیٰ کے دین کے احکام کو مسخ کرتے ہیں، جو اپنی تنظیموں اور اداروں کی رجسٹریشن اور مفادات کی حفاظت کے لئے مذہبی رشوت کے طور پر سود کی حلت پر مبنی 26ویں آئینی ترمییم کی حمایت کرتے ہیں، جو خوارج کو بہانہ بنا کر اسلام کے نظریہ جہاد کو مسخ کرتے ہیں، جو طاغوت کے سامنے عزیمت و استقامت اپنانے کی بجائے غیر سیاسی ہو کر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں؛ واللہ وہ مصلحین نہیں، مفسدین ہیں۔ واللہ وہ علمائے ربانین نہیں علمائے سوء ہیں، وہ انبیاء و رسل کے وارث نہیں بلکہ علمائے حق کے لبادہ میں چھپے ہوئے سامری جادوگر کے گوسالہ ہیں، جو لوگوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں، نہ کہ اللہ و رسول اللہ ﷺ کی طرف۔

واللہ تعالیٰ علم و رسولہ اعلم

Comments

No comments yet.

Add a Comment