عمران خان کا ریاستِ مدینہ کا تصور اور تھیوکریسی کی نفی
یونانی زبان میں theos کے معنی "الٰہ" کے ہیں، krateo کے معنی "حکومت" کے ہیں۔ ان دو الفاظ کے مرکب سے یونانی میں اصطلاح theokratia بنی جس کے معنی "الٰہیاتی حکومت" کے ہیں۔ بعد ازاں جب یونانی ادب کا انگلش میں ترجمہ کیا گیا تو اس کیلئے theocracy کی اصطلاح انگلش میں مستعمل ہوئی۔
تاریخی اعتبار سے مستند حوالوں کے مطابق تھیو کریسی کی اصطلاح سب سے پہلے یہودی مورخ فلاویس جوزیفس (37-100 CE) نے اپنی تصنیف "Against Apion" میں وضع کی تھی، جو تاریخی اعتبار سے 96-100 СЕ کے ارد گرد لکھی گئی تھی۔ اپنی تصنیف "Against Apion" میں جوزیفس نے بت پرست یونانی مؤرخ Apion کی تورات اور یہودیت پر تنقید کے خلاف تورات اور یہودیت کا دفاع کیا۔ جوزیفس نے اپنی اس کتاب میں کئی نظریات اور اعتراضات کو مسترد کیا۔ جوزیفس نے دلائل پیش کئے کہ یہودی مذہب تورات کو آسمانی قانون مانتا ہے اور ایک عالمگیریت کا حامل انسان دوست مذہب ہے۔ جوزیفس نے متعدد معبودوں کی عبادت اور incarnation جیسے باطل اعتقاد پر مبنی بت پرستی کی رسوم کے پیروکار یونانی مذہب پر تنقید کی اور یہودیت کے ہاں عقیدہ توحید کو دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ جوزیفس نے بنی اسرائیل کے صحیفوں کی صحت کو تاریخی اور عقلی بنیاد پر ثابت کیا اور مصری اور یونانی دیوتاؤں کے افسانوی واقعات کو مسترد کر دیا۔ جوزیفس نے عیسایت میں پنپنے والے الحادی عقیدہ کی بھی نفی کی جس میں سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو بطورِ الٰہ یا اللہ عز و جل کے بیٹے کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ ان تمام باطل اعتقادات اور سیاسی نظریات پر مبنی حکومتی نظاموں کو رد کرنے کے بعد جوزیفس نے یہودی نظام حکومت کو بیان کرنے کے لیے "theokratia" کی اصطلاح استعمال کی۔ جوزیفس لکھتا ہے کہ؛
"Our lawgiver, however, was attracted by none of these forms of polity, but gave to his constitution the form of what if a forced expression be permitted, may be termed a "theocracy," a placing all sovereignty and authority in the hands of God".
ترجمہ: "ہمارا قانون عطا کرنے والا، تاہم، ان میں سے کسی بھی طرزِ سیاست کی طرف متوجہ نہیں ہوا، لیکن اس نے اپنے آئین کو ایسی شکل دی جس کی (ریاستی) نوعیت کا اگر زبردستی (الفاظ میں) اظہارِ کیا جائے، تو اسے "تھیوکریسی" کہا جا سکتا ہے، جس میں تمام اقتدار اعلیٰ اور مطلق اختیارات کو اللہ کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے"۔
لہٰذا! جوزیفس نے اس وضاحت کے ادبی اظہار کی خاطر theokratia کی اصطلاح وضع کی کہ، "یہودی مذہب میں حکومت ایک ایسی سیاسی اتھارٹی ہے جو "الٰہ" کے اقتدار اعلیٰ اور مطلق اختیارات کے تابع ہوتی ہے، اور تمام ادارے الٰہیاتی قوانین کی پاسداری کے پابند ہوتے ہیں"۔
راقم نے گزشتہ کالم، "عمران خان کی ریاستِ مدینہ کا تصور، جہالت یا خیانت"، میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ تحریک انصاف کا ریاست مدینہ بارے موقت دجل، خیانت اور جہالت پر مبنی ہے۔ تحریک انصاف کے منشور میں ریاستِ مدینہ بارے لکھا ہے کہ؛
"Riyasat-e-Madina is based on RULE OF LAW. It is not a theocratic state but a welfare state".
راقم نے اپنے گزشتہ کام میں مکمل وضاحت کی ہے کہ ریاستِ مدینہ ایک theocratic ریاست تھی جہاں اقتدارِ اعلیٰ اللہ عز و جل کا، تشریعی حاکمیت سیدنا رسول اللہ ﷺ، دینِ اسلام بطور ریاستی دستور نافذ تھا اور معاشرہ میں انفرادی یا اجتماعی نوعیت کے قومی و بین الاقوامی تمام تر معاملات دینِ اسلام کے تابع تھے۔ تھیوکریسی کی نفی دراصل اللہ عز و جل کی حاکمیت اعلیٰ و سیدنا رسول اللہ ﷺ کی تشریعی حاکمیت کی نفی ہے۔
لیکن حیرانگی ہے کہ تحریک انصاف کے خواندہ حضرات جاہلانہ رویہ اپنا کر کبھی گوگل سے تعریفیں دیکھتے پھر رہے ہیں، کبھی تھیوکریسی کو ملائیت کہ رہے ہیں، کبھی پاپائیت کہ رہے ہیں، جبکہ اس کے بنیادی تصور کے بارے میں قطعی لاعلم ہیں۔ دوبارہ وضاحت کر دیتا ہوں کہ؛
1. تھیوکریٹک ریاست ایک ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں اقتدارِ اعلیٰ اور مطلق اختیارات اللہ عز و جل کے ہوتے ہیں
2. جس میں انبیاء و رسل علیہ السلام تشریعی حاکم ہوتے ہیں؛
3. جس میں انبیاء و رسل علیہ السلام کی شریعت بطور قانون نافذ ہوتی ہے
4. جس میں حکمران اور تمام ریاستی ادارے قانون سازی اور اجراء حکم میں شریعت کے پابند ہوتے ہیں
5. جس میں تمام تر معاشی، سماجی، سیاسی، تہذیبی اقدار اور پالیسیز کو شریعت کی روشنی میں بنایا اور نافذ کیا جاتا ہے
یہ وہ بنیادی تصور ہے جو تھیوکریسی کی اصطلاح کی اصل ہے۔
یہود نے اس اصل میں تحریف کر کے اپنے پیشواؤں کو خدا بنا لیا
عیسائیوں نے اپنے پادریوں کو خدا بنا لیا
جب اسلام آیا اور تمام تہذیبی اقدار کی تصدیق فرمائی گئی تو مندرجہ بالا 5 تصورات کی توثیق فرمائی گئی اور اس سیاسی نظام کو خلافت کا پاکیزہ نام دے کر اسکی تکوینی اصل پر قائم فرما دیا۔
صد افسوس! آج پڑھے لکھے تحریک انصاف کے ووٹرز سپورٹرز نے جانے انجانے میں عمران خان نیازی کی ہر جہالت، دجل اور خیانت کو ایسے قبول کیا ہے جیسے کہ وہ تحریک انصاف والوں کو (معاذ اللہ) خدا ہو۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
Comments
No comments yet.
Add a Comment