Muhammad is not the father of [any] one of your men, but [he is] the Messenger of Allah and last of the prophets. And ever is Allah, of all things, Knowing. { Translation } مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَ لَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ * وَ كَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

ریاستِ مدینہ اور عمران خان کا چائنہ ماڈل

ابو محمد January 01, 2025 179 views 0 likes

Like Article

 تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے کالم اور کثیر تقاریر میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ چائنہ سے ریاستِ مدینہ کا ماڈل اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب چائنہ میں ریاستِ مدینہ کی جھلک دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛

"چائنہ کو اگر صحیح معنوں میں سٹڈی کریں تو حقیقت میں انہوں  نے وہ کام کیا ہے جو مدینہ کی ریاست میں سرکارِ مدینہ نے اصول بنائے تھے۔ انہوں نے کیا کیا؟ انہوں ںے ویلتھ کری ایٹ کی اور اس کو نچلے طبقے کو غربت سے نکالنے کیلئے استعمال کی۔ 70 کروڑ لوگوں کو 30 سال میں انہوں [چائنہ] نے غربت سے نکالا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کسی نے نہیں کیا۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ 30 سال پہلے ان کا 300 بلین ڈالر جی ڈی پی تھا جو آج پاکستان کا ہے، اور آج 10 ٹریلین ہے"۔

حیران کن بات یہ ہے کہ مادی نقطہ نظر سے فلاحی ریاست کے سیکولر تصور کو مدینہ کی ریاست کا اصول کہنا، اور کہنا کہ چائنہ میں وہی ہوا جو سیدنا رسول اللہ ﷺ نے مدینہ المنورہ میں سر انجام دیا تھا، یہ نہ صرف انتہا درجہ کی جہالت ہے بلکہ دجل اور سیدنا رسول اللہ ﷺ پر صریح بہتان ہے۔ چائنہ ہو یا یورپ، تمام کی تمام اپنے تئیں فلاحی ریاستیں ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں جبکہ ان کے فلاح کے تصورات قطعی طور پر اسلام کی ضد ہیں۔  سیکولر فلاحی ریاستوں میں دجل کے ساتھ عدل کے نام پر جبر اور فلاح کے نام پر استحصال کیا جاتا ہے۔ سیکولر فلاح کی چکاچوند دیکھ کر مسلمان ان ممالک سے مرعوب ہوتے ہیں، پھر وہاں ہجرت کرتے ہیں، اور ایک نسل اس فلاح کے ثمرات سے لطف اندوز ہوتی ہے لیک جو قیمت ادا کرتے ہیں وہ اپنی آمد تمام نسلوں کی گمراہی اور دنیا و آخرت کی ناکامی ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کو آزادانہ طور پر اپنے  مذہب کی تعلیم تک نہیں دے سکتے۔ مسلمان والدین اپنے بچوں کو نہیں بتا سکتے کہ ہم جنس پرستی جرم اور کبیرہ گناہ ہے، اور اس کا ارتکاب کرنے والے ملعون لوگ ہیں۔ کیونکہ یہ نفرت کی تعلیم قرار پاتا ہے اور خدانخواستہ بات سکول انتظامیہ وغیرہ تک پہنچ گئی تو ریاست معاملہ میں فریق بن جائے گی کہ وہ ریاست کے ہم جنس پرست طبقات کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، اور پھر بچوں کو ماں باپ سے جدا کر دیا جائے گا تاکہ وہ کفر کی اقدار کے ساتھ پروان چڑھ سکیں۔ لہٰذا مسلمان والدین کو اپنی اولاد کو فقط اپنے ساتھ رکھنے کیلئے انہیں صریح کفر اور منکرات سے بچنے کی تعلیم تک دینے کی آزادی قربان کرنی پڑتی ہے کیونکہ وہ ایک سیکولر فلاحی ریاست میں رہ رہے ہیں جس میں اخروی فلاح کا کوئی تصور نہیں ہے۔

ہاں تک چائنہ کی بات ہے تو چائنہ نے قطعی وہ نہیں کیا جو ریاستِ مدینہ میں ہوا تھا۔ چائنہ نے اپنے اقتصادی نظام میں کوآپریٹو بزنس ماڈل کو وسیع سطح پر متعارف کروایا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ عام شہری کی کارپوریٹ سیکٹر تک رسائی اور کیپیٹالسٹ کارپوریشنز کا مقابلہ کرنے کی استطاعت بڑھ گئی۔ گھریلو دستکاری اور چھوٹی صنعتوں کو فروغ ملا اور عوام کو ملازمت کے مواقع میسر آئے جس کی وجہ سے ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ انٹرنیشنل کوآپریٹو الائنس دنیا میں ان 1 ارب انسانوں کی نمائندہ تنظیم ہے جو دنیا میں موجود 3 ملین کوآپریٹوز سے وابستہ ہیں۔ انکے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 12 فیصد آبادی کی معاش ان 3 ملین کوآپریٹو یونٹس سے وابسطہ ہے۔ ان 3 ملین کوآپریٹوز میں سے بڑے 300 کوآپریٹوز کی سالانہ پیداوار 2409 بلین ڈالر کی ہے جو تقریبا اڑھائی ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔ دنیا میں ملازمت کے کل مواقعوں میں سے 10 فیصد مواقع یہ 3 ملین کوآپریٹوز فراہم کر رہے ہیں۔ ان 3 ملین کو آپریٹوز میں سے ڈیڑھ ملین کوآپریٹو چائنہ میں ہیں جبکہ 1 ملین سے زیادہ کوآپریٹوز انڈیا میں کام کر رہے ہیں۔ باقی ماندہ کوآپریٹوز افریقہ، ایشیا، یورپ اور امریکہ کے ممالک میں ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ایک بھی کوآپریٹو موجود نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لئے معاشی حالات سازگار ہیں، نہ ایسے بزنس ماڈل کیلئے کوئی موثر قانونی تحفظ موجود ہے۔ کوآپریٹو بزنس کی کامیابی میں پہلا اصول ریاستی سطح پر عوامی اعتماد کی حفاظت کرنا ہے۔ ریاستیں جب مناسب قانون سازی اور فعال عدالتی نظام سے عوامی اعتماد کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہیں تو سرمایہ دار کو ہنر مند کے ساتھ کام کرنے کیلئے اپنا سرمایہ مارکیٹ میں لانے کا حوصلہ ملتا ہے۔ لہٰذا صنعتی انقلاب لانے، ملازمت کے مواقع فراہم کرنے، غربت کی سطح کو کنٹرول کرنے کیلئے کسی بھی معاشی نظام میں کوآپریٹو بزنس ماڈل کو فعال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ریاستی سطح پر عوامی اعتماد کے تحفظ کی مناسب ضمانت موجود ہو، بد اعتمادی کی فضا کو ختم کیا جائے، اور سرمایہ دار خوشی سے ہنرمند افراد کے ساتھ نئے کاروبار کی شروعات کرنے میں اپنے آپ کو اور اپنے سرمایہ کو محفوظ محسوس کریں۔  

چائنہ نے اپنے خالصتا سیکولر معاشی اعتقادات کی روشنی میں شراب بنانے سے لیکر تسبیح و مصلیٰ بنانے تک کے بھی کوآپریٹو لگائے ہیں۔ ہر وہ چیز جس کی دنیا کے کسی بھی خطہ میں کسی بھی طبقہ میں ڈیمانڈ موجود ہے چائنہ نے بغیر کسی اخلاقی و مذہبی قدر کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر اس کی پیداوار کو ترجیحی بنیادوں پر اختیار کیا ہے۔ لہٰذا چائنہ میں غیر مذہبی و غیر اخلاقی اصولوں پر صنعتی انقلاب آنے، پیدا وار کے بڑھ جانے، اور غربت کی شرح میں کمی ہو جانے کو ریاستِ مدینہ سے کیسے تمثیل کیا جا سکتا ہے؟  عمران خان صاحب چاہتے تو اسلامی ٹچ دئیے بغیر بھی عوام کو یہ بات سمجھا سکتے تھے کہ وہ پاکستان میں کیسے صنعتی انقلاب لائیں گے، غربت کا خاتمہ ممکن بنائیں گے، کیسے وہ روزگار کے مواقع فراہم کریں گے، کیسے وہ معاشی حالات سدھاریں گے وغیرہ۔

لیکن کیونکہ پاکستان میں علماء سے لیکر عوام تک مجذوب فرنگی بنے ہوئے ہیں جن کے مذہبی جذبات فقط اسلامی ٹچ سے محظوظ ہو جاتے ہیں، لہٰذا عمران خان صاحب نے ریاستِ مدینہ کی اصطلاح کا استعمال مناسب سمجھا کیونکہ اس سے کثیر سیاسی فوائد سمیٹے جا سکتے تھے۔

ریاستِ مدینہ میں معاشی فلاح جس اصول پر قائم ہے وہ انسان کی دنیاوی اور اخروی کامیابی ہے۔ سورۃ البقرہ [سورۃ 2] آیت 268 میں اللہ عز و جل کا فرمان عظیم الشان ہے کہ؛

اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِۚ

شیطان تمہیں محتاجی کااندیشہ دلاتا ہے اور بے حیائی کاحکم دیتا ہے

لہٰذا، دنیا بھر میں طاغوت مفلسی کے ڈر سے دنیا کو فحاشی اور منکرات میں مبتلا کرتا چلا جا رہا ہے، یہی کچھ چائنہ میں ہے، یہی کچھ امریکہ اور یورپ میں ہے اور یہی کچھ جناب عمران احمد خان نیازی صاحب نے کیا جب ان کو گستاخ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے عوام کو مفلسی سے ڈرا کر العیاذ باللہ سیدنا رسول اللہ ﷺ سے غداری کو مناسب سمجھا۔

جبکہ ریاستِ مدینہ میں اس سے یکسر مختلف ہوا تھا۔ مواخاتِ مدینہ سے لیکر جتنا بھی معاشی فلاح کا نظام آیا وہ غرباء کی دنیاوی و اخروی فلاح کے جامع تصور کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا جسے کسی بھی صورت کسی سیکولر ریاست کے فحاشی اور منکرات پر مبنی فلاح کے تصور کی مثل کہنا العیاذ باللہ اسلام کی صریح توہین ہے۔ سیکولر ریاست میں فلاح کا تصور اسلام سے یکسر مختلف ہے۔ وہ تباہی کو دجل کے ساتھ فلاح دکھاتا ہے اور فحاشی کا حکم دیتا ہے۔ شراب، جوا، سود، جسم فروشی، مادہ پرستی سمیت ہر اس منکر کو رائج کرتا ہے جس سے دنیاوی منافع کمانا آسان ہو لیکن حتمی طور پر عوام الناس کو معاشی اسیری میں دکھیلتا ہے۔

اسلام نے اگر عوام کی معاشی فلاح کی ذمہ داری مسلم حکمرانوں پر ڈالی ہے تو اپنے فطری مقاصد کے تابع فلاحی پیکیج بھی ساتھ دیا ہے جو جہاد سے شروع ہوکر زکوٰۃ اور فرض صدقات تک وسیع ہے۔

لہٰذا تحریک انصاف کے کارکنان اور ووٹر سپورٹرز کو عمران احمد خان نیازی صاحب کے اس دجل سے نکلنا ہو گا جس کی دینِ اسلام میں قطعی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اگر آپ اسلام کے فلاح کے اس تصور کو صورتگر کرنا چاہتے ہو جو ریاستِ مدینہ میں متصور ہوا تھا تو آپ کو قرآن مجید فرقان حمید میں الحمد سے لیکر والناس تک ہر ہر حرف اور ہر ہر حکم کو اپنے معاشرہ میں مِن و عن نافذ کرنا ہو گا۔

واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم بالصواب

Comments

No comments yet.

Add a Comment