جمہوریت اور شورائی نظامِ انتخاب – ایک معمہ
ایک عصری علوم میں تربیت یافتہ اہلِ رائے سے پوچھا گیا کہ شورائی اور جمہوری نظام میں موجود فرق کو بیان کریں تو جواب درج ذیل تھا کہ؛ 1 – شورائی نظام ماہر اہلِ رائے کی مشاورت پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں ہر آواز کو سنا جاتا ہے چاہے وہ شیطان کی ہی کیوں نہ ہو؛ 2 – شورائی نظام خواص کی مشاورت سے چلنے والا نظامِ حکومت ہے جبکہ جمہوریت عوام کی مشاورت سے آگے بڑھتی ہے؛ 3 – شورائی نظام اہلیت کو مقدم رکھتا ہے جبکہ جمہوریت میں کوٹا سسٹم اور خوشامد کو مقدم رکھ کر اہلیت کو کچلا جاتا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی دعوت و تبلیغ کی غیر سیاسی جماعت دعوتِ اسلامی کے بانی علامہ الیاس عطار قادری حفظہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیا گیا کہ کیا دعوتِ اسلامی کا سیاست میں آنے کا کوئی اراد ہے۔ تو جواب دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ، "میں نے سیاست بہت دیکھی ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے موجودہ سیاسی انداز میں خرابیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ اب یہ کہ اگر کوئی سیاست میں پاکیزگی کی لہر آ گئی، اور خلفائے راشدین کی طرح کی کوئی سیاست آ گئی تو ان شاء اللہ سب سے پہلا سیاستدان الیاس قادری ہو گا"۔
جبکہ دیگر کثیر غیر سیاسی پیشہ ور خطباء و علماء سے جب سیاست بارے تاثرات لئے جاتے ہیں تو وہ کہتے نظر آتے ہیں کہ، "جمہوریت اسلام میں نہیں ہے، یہ کفر کا نظام ہے، اس لئے وہ سیاست سے دور رہنا چاہتے ہیں"۔
لیکن مندرجہ بالا صاحبانِ علم و دانش کے برعکس ایک ایسا جواب بھی موجود ہے جو بانی تحریک لبیک پاکستان علامہ خادم حسین رضوی نور اللہ مرقدہ نے ایک صحافی کے سوالات کرنے پر دیا۔ آپ سے ہونے والے سوالات مع جوابات کو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے؛
اینکر: جمہوریت کو سپورٹ کرتے ہیں آپ؟
جواب: میں اسلام کو سپورٹ کرتا ہوں
اینکر: اسلام کے اندر جمہوریت کا کیا کنسیپٹ ہے؟
جواب: اسلام میں جمہوریت کا کنسیپٹ نہیں ہے، اسلام کے اندر خلافت کا کنسیپٹ ہے
اینکر: آپ چاہتے ہیں خلافت نافذ ہو پاکستان میں؟
جواب: ہم چاہتے ہیں اسلام نافذ ہو
اینکر: اگر الیکشن میں آ رہے ہیں تو پھر یہ کیسے ہو گا؟
جواب: ان شاء اللہ ہم جمہوریت کو پیچھے لگائیں گے اسلام کے کہ تابع ہو اسکے۔ اسلام راہنمائی کرے گا کہ (جمہوریت کو) کیسے چلنا ہے
اس مختصر کالم کا مقصد ان اختلافی نقطہ نظر میں ہم آہنگی کی راہ پیدا کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کرنا ہے۔ عرصہ سو سال سے امتِ مسلمہ اسلامی ریاست اور نظامِ حکم کے سایہ سے محروم اور صیہونی سیکولر ورلڈ آرڈر کی غلام ہو کر رہ گئی ہے۔ جب سے برصغیر پاک و ہند میں سیکولر صیہونی ورلڈ آرڈر نے جمہوری انتخابی سیاست کا طریقہ رائج کیا ہے تب سے علمائے امت میں ایک موضوع زیرِ بحث چلا آ رہا ہے کہ اسلام میں جمہوری انتخابی سیاست کی حیثیت کیا ہے۔ مزید ظلم یہ ہوا ہے کہ صیہونی ورلڈ آرڈر کے اسلام کش قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے علماء نے نہ صرف منبر و محراب سے سیاست کے متعلقہ احکاماتِ شرعی کو بیان کرنا چھوڑ دیا بلکہ علماء کے حلقوں میں سیاست کے متعلقہ مباحث اور تحقیق کو بھی ختم کر دیا گیا۔ علماء کی اس خاموشی اور مداہنت نے امتِ مسلمہ پر مسلط جہالت اور غلامی کی اس تاریک رات کی طوالت کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ چنانچہ آج جب کسی مسلمان کو نفاذِ اسلام کی عملی جدوجہد کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اپنے پسندیدہ عالم کی منہج کو مقدم رکھتے ہوئے بہانہ سازی سے عملی جدوجہد کی دعوت کو ٹھکراتے زرا برابر نہیں جھجکتا۔
راقم سمجھتا ہے کہ اسلام ایک کامل سیاسی نظریہ ہے جبکہ جمہوریت کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے جو اسلام سے قطعی طور پر متصادم قرار دیا جا سکے۔ جمہوریت ایک انتخابی طریقہ کار ہے جس میں امام یا امیر کا انتخاب بالواسطہ یا بلا واسطہ عوامی رائے دہی سے ہوتا ہے۔ بظاہر اس انتخابی طریقہ کار کا مقصد قوم کے کثیر افراد کو امیر کے انتخاب میں اپنی رائے دینے کا حق فراہم کرنا ہے تاکہ طوائف الملوکی اور استبدادی حکماء کے مسلط ہونے کی راہیں کم سے کم کی جا سکیں۔ جہاں تک سیاسی نظریہ کی بات ہے تو اسلام سے متصادم سیاسی نظریہ سیکولرازم ہے، یعنی دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ۔ کسی بھی انداز میں جب سیاست اور دین کی جدائی وقوع پذیر ہو گی وہ سیکولرازم قرار پائے گی۔ چاہے سیاست دان اپنی سیاست سے دین کے متعلقہ احکام کی نفی کر دے، یا مبلغ اپنی تبلیغ سے سیاست کے متعلقہ احکامِ دین کی نفی کر دے، یا کوئی معلم اپنی تعلیم سے سیاست کے متعلقہ احکامِ دین کی نفی کر دے، تمام کے تمام افعال سیکولرازم قرار پاتے ہیں۔
لہٰذا یہاں پر اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی سیاست کو فقط ایک انتخابی طریقہ کار کی وجہ سے شرعی یا غیر شرعی قرار دیا جا سکتا ہے؟ راقم کی رائے یہ ہے کہ جمہوری انتخابی طریقہ کار اپنی اصل میں نہ کفر ہے نہ اسلام، بلکہ؛
"جمہوری انتخابی طریقہ کار کو اگر سیکولر نظریہ کے تابع استعمال کیا جائے گا تو یہ سیکولر جمہوریت قرار پائے گی جو کفر پر استوار ہو گی؛ اور اگر جمہوری انتخابی طریقہ کار کو اسلام کے ضابطہ اخلاق کے تابع استعمال کیا جائے گا تو یہ اسلامی جمہوریت قرار پائے گی اور نتیجہ دین و دنیا کی فلاح ہو گا"؛
اور
یہی حقیقت شورائی نظامِ حکم کے لئے بھی حقیقی طور پر ثابت ہے۔ اس حقیقت سے پردہ کشائی کرنے کیلئے درجِ ذیل امور کو بغور دیکھنا ہو گا۔
1 – بعثتِ رسالت ماب ﷺ سے قبل شورائی نظام مروج تھا۔ معاشرے اور قومیں اپنے امیر یا حکمران کے انتخاب کرنے، اور قومی اہمیت کے فیصلے کرنے کیلئے اپنی روایات اور ضابطہ اخلاق کے تابع شورائی نظام کو اپنائے ہوے تھے۔ اسلام نے اپنے نظام حکم میں قومی فیصلہ سازی میں مشاورت کی اہمیت کو قبول کرتے ہوئے شورائی نظام کی محض مشاورت کی حد تک تصدیق فرمائی۔ خلفائے راشدین قومی اہمیت کے معاملات میں مشاورت کرتے تھے لیکن وہ پابند نہ تھے کہ وہ شوریٰ کے مشورہ کو ہر صورت قبول بھی فرمائیں گے۔ لہٰذا شورائی نظام شرعی امیر کی معاونت کے لئے ایک حسنِ تدبیر کی خاطر ایک مشاورتی پروٹوکول تھا تاکہ بحیثیت انسان امیر کو معاونت مل سکے، اور وہ مثبت فیصلے کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ مزید یہ کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں کوئی بھی مستقل شوریٰ امیر کے انتخاب کی مجاذ نہ تھی۔ چاروں خلفاء میں سے کسی ایک خلیفہ راشد کا انتخاب بھی کسی مستقل شوریٰ نے نہیں کیا۔ چنانچہ قومی فیصلہ سازی میں امیر کی معاونت کا شورائی نظام فقط ایک حسنِ تدبیر کے تحت مشاورتی پروٹوکول تھا جسے قبل از بعثتِ نبوی ﷺ کفار اپنے کفریہ مقاصد کیلئے استعمال کر رہے تھے لیکن مسلمانوں کو اسلام نے الٰہیاتی مقاصد کی خاطر اسلامی ضابطہ اخلاق اور اصولوں کے دائرہ کار میں رہ کر اسے استعمال کرنے کی اجازت دی۔
2 – خلافتِ راشدہ کے دور سے لیکر 1924ء تک کسی دور میں بھی عالمِ اسلام میں امیر کے انتخاب کے طریقہ کار کو جامد اور طے شدہ طریقہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ یہ اجتہادی مسئلہ رہا ہے۔ چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انتخاب یا تقرر کے چار مختلف طریقے موجود ہیں۔ خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جید صحابی (سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بیعت سے منتخب ہوئے اور دیگر تمام صحابہ نے ان کی پیروی کرتے ہوئے بیعت کی۔ خلیفہ دوم سیدنا فارقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وصیت سے منتخب فرمایا۔ خلیفہ ثالث سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتخاب کیلئے خلیفہ دوم سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک 6 رکنی انتخابی کمیشن قائم کیا جو خلیفہ کے تقرر کا ذمہ دار تھا۔ خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مخدوش سیاسی حالات کی بنا پر خود دعویٰ خلافت کیا اور امت نے آپکی بیعت کی۔ لہٰذا وہ لوگ جو جمہوری انتخابی طریقہ کار کو شورائی انتخابی طریقہ کار کی ضِد کہتے ہیں، یا مطلقا حرام، کفر یا شرک کہتے ہیں، انکو جواب دینا ہو گا کہ اگر اسلام کے نظام حکم میں کوئی جامد انتخابی طریقہ کار طے شدہ موجود ہے تو پھر چاروں خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انتخاب کا طریقہ کار مختلف کیوں تھے؟ مزید یہ بھی بتائیں کہ اگر اسلام کے نظام حکم میں کوئی انتخابی طریقہ کار طے ہے تو چاروں خلفائے راشدین میں سے کون سے خلیفہ راشد اس طے شدہ طریقہ کار کے تحت منتخب ہوئے، اور باقی تینوں خلفائے راشدین کے انتخابی طریقہ کار پر وہ صاحبانِ علم و دانش کیا حکم لگائیں گے؟
3 – علماء کو عوام کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ کسی امیر یا حکومت کو شرعی یا غیر شرعی قرار دینے کیلئے کیا کسی خاص طریقہ انتخاب سے اس کا منتخب ہونا شرط ہے؟ اگر ایسا کوئی شرطیہ طریقہ کار موجود ہے تو اس کی وضاحت فرما دیں، اور فی زمانہ اس طریقہ انتخاب کو کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے اس کی وضاحت بھی فرما دیں۔
4 – علماء کو اس بات کی وضاحت بھی کرنی ہو گی کہ سیدنا فاروقِ اعظم ضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریقہ انتخاب یہ تھا کہ آپ اپنے پیشرو خلیفہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت سے منتخب ہوئے، اور خلیفہ راشد قرار پائے۔ جبکہ اسی طریقہ انتخاب سے یزید بھی برسرِ اقتدار آیا جیسا کہ اس کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت سے منتخب کیا گیا تھا، لیکن وہ لعنتی قرار پایا۔ علماء کو وضاحت کرنی ہو گی کہ اگر کسی خاص طریقہ کار سے منتخب کردہ امیر (جیسا کہ وصیت) اپنے اتنخابی طریقہ کار کے شرعی ہونے کی وجہ سے شرعی قرار پا سکتا ہوتا تو پھر یزید لعنتی کیوں قرار پایا؟
5 – علماء ءکو اس بات کی وضاحت بھی کرنی ہو گی کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ امیر کا تقرر چاہے وصیت سے ہو، چاہے فردِ واحد کے فیصلے سے ہو، چاہے کسی انتخابی کمیشن کے توسط سے ہو، چاہے مستقل شوریٰ کے توسط سے ہو یا چاہے کوئی تلوار سے حکمران ہو جائے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کی سیاست و حکومت جائز ہو گی یا ناجائز، شرعی ہو گی یا غیر شرعی۔ کسی بھی حکومت کے شرعی ہونے، جائز ہونے اور قابل اتباع ہونے کی واحد شرط یہ ہے کہ وہ؛ "قرآن و سنت کی روشنی میں اللہ عز و جل کی حاکمیت اعلیٰ و سیدنا رسول اللہ ﷺ کی تشریعی حاکمیت کو سیاسی اعتبار سے نافذ کرے"، چاہے وہ حکومت، "جمہوری طریقہ انتخاب سے ہی منتخب کیوں نہ ہوئی ہو"۔
علماء کرام کی خدمت میں گزارش ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ کار اجتہادی معاملہ تھا، اور ہر خلیفہ راشد کی تقرری میں اس وقت کے درپیش سماجی و سیاسی حالات کی ضروریات کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بہترین طریقہ کار اپنایا۔ راقم کا مطالبہ ہے کہ علماء کی جانب سے قوم کو بتایا جائے کہ تہذیبی اقدار، سماج کی فکری تعمیر، درپیش سیاسی و سماجی حالات کو مدِ نظر رکھ کر آج بھی کوئی ایسا انتخابی طریقہ کار وضع کرنے کیلئے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے جو اسلام کے طے کردہ اہلیت کے معیار کو بھی پورا کرے، اور اسلام کے نظام حکم و قانونی فریم ورک کے طے شدہ سنہری اصولوں سے متصادم بھی نہ ہو۔ امتِ مسلمہ انتہائی سیاسی بد حالی کے دور سے گزر رہی ہے اور اس بدحالی کے دور میں طاغوت کی حکمرانی سے نکلنے کیلئے امتِ مسلمہ کی سیاسی قوت کو متحد کرنے کی بجائے فضول کی تاویلات گھڑ کے منتشر کرنا کسی صورت میں بھی دینِ اسلام کے نورِ توحید کے اِتمام کے الٰہیاتی منصوبہ کی خدمتگاری نہیں کہلا سکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ جمہوریت ایک انتخابی طریقہ کار ہے جس کی کوئی حتمی شکل موجود نہیں ہے ما سوائے ایک اصول کے کہ معاشرہ کی تمام اکائیوں کو امیر کے انتخاب میں طے شدہ ضابطہ اخلاق کے مطابق رائے دہی کا موقع فراہم کیا جائے۔ تمام ممالک اس طریقہ انتخاب کو اپنے قومی سیاسی نظریات اور سماج کی ساخت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک مروجہ ضابطہ اخلاق کے تحت ضروری تبدیلیوں کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں تاکہ ان کے ہاں مروجہ سیاسی نظریہ میں فلاح کا جو بھی جامع تصور موجود ہے اس کو قومی زندگی میں عملی طور پر صورتگر کیا جا سکے۔ لہٰذا کیونکر یہ ممکن نہیں کہ جمہوریت کو پاکستان میں ضروری تبدیلیوں کے ساتھ اسلام کے ضابطہ اخلاق کے تابع کیا جائے تاکہ اسلام میں فلاح کا جو جامع تصور موجود ہے اس کو انفرادی و اجتماعی زندگی میں صورتگر کیا جا سکے۔ بنیادی طور پر امیر کے انتخاب میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کا یہ اصول بھی اسلام کا دیا ہوا ہے جو بعد ازاں مغرب میں جمہوریت کے انداز میں اپنایا گیا۔ امام ابو الحسن علی بن محمد حبیب الماوردی (متوفی 1058ء) اپنی کتاب "الاحکام السلطانیہ" کے پہلے باب میں ہی ایک باقاعدہ "انتخابی ادارہ" کے قیام پر بات کرتے ہیں۔ امام حبیب الماوردی فرماتے ہیں کہ؛
"امامت کا قیام جہاد اور حصولِ علم کی طرح سے فرض کفایہ ہے۔ جو بھی اس کی ادائیگی کا ذمہ دار ہو اگر وہ اسے ادا کر دے تو امت کے تمام لوگوں سے یہ ذمے داری ساقط ہو جائے گی۔ اور اگر کوئی اس ذمے داری کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو، تو امت کے افراد دو قسم کے ہوں گے، ایک جو اہل الرائے ہوں گے اور وہ کسی امام کو منتخب کریں گے، اور دوسرے وہ لوگ جو امامت کے منصب پر فائز ہونے کے مستحق ہوں گے۔ ان دونوں قسم کے افراد کے علاوہ باقی افراد امت پر امامت کے انعقاد کی تاخیر پر کوئی گناہ یا ذمے داری نہیں ہے"
اہلِ رائے جن کو امام کے انتخاب کا اختیار دیا جانا چاہیے انکی اہلیت بارے امام حبیب الماوردی لکھتے ہیں کہ؛
1 – ان میں مکمل طریقے پر حق اور انصاف کی رعایت کی صلاحیت موجود ہو
2 – انہیں یہ علم حاصل ہو کہ امامت کی مختلف شرائط کے پیش نظر کون شخص اس منصب کا اہل ہے اور امت کے مصالح کو بہتر جانتا اور ان کی نگہبانی کر سکتا ہے
3 – ان میں دانائی اور فکر کی صلاحیتیں موجود ہوں تاکہ وہ بہترین اہلیت رکھنے والے آدمی کا انتخاب کر سکیں۔
امام الماوردی مزید "امام کے انتخاب کا طریقہ" کے تحت لکھتے ہیں کہ؛
"امام کے انتخاب کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ اہل رائے اور صاحب فہم لوگ جو معاملات و مسائل کو سمجھتے ہوں وہ منتخب کریں۔ اور دوسرے یہ کہ امام اپنے عہدِ امامت ہی میں اپنا جانشین مقرر کر دے"
طریقہ کار جس میں امام کا تعین اہل رائے کرتے ہیں اس بارے امام الماوردی لکھتے ہیں کہ؛
"پہلی صورت میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اہل رائے کی تعداد کتنی ہونی چاہیے (یعنی متعین نہیں)۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ امامت کے انعقاد کیلئے ہر شہر کے اہل رائے کا انتخاب ضروری ہے تاکہ امامت پوری امت کے اتفاق سے قائم ہو"۔
اس مسئلہ کی کثیر تفاصیل کتاب میں موجود ہیں تاہم پیشِ نظر سوال "جمہوریت اور شورائی نظامِ انتخاب " کے جواب کی خاطر اتنا لکھ دینا کافی ہو جاتا ہے۔ یہاں امام کے قیام کی خاطر ہر شہر سے اہل رائے کے انتخاب کی ضرورت بیان ہو گئی تاکہ انکے توسط سے امام کے انتخاب کے سلسلہ میں امتِ مسلمہ کا اتفاقِ رائے قائم کیا جاج سکے۔ چنانچہ اگر علماء مداہنت کو ترک کر دیں تو انکو یہ بات قطعی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ فی زمانہ یہی طریقہ کار جمہوریت کے نام سے نافذ العمل ہے۔ علماء نے اگر عامۃ المسلمین کو سیاست کی تعلیم دی ہوتی تو آج ہم جیسے جہلاء کو معلوم ہوتا کہ ہم جو اپنے انتخابی حلقہ میں اپنے انتخابی امیدوار کو منتخب کرتے ہیں وہ ہمارا منتخب "اہل رائے" قرار پائے گا، اور اس کی رائے سے قوم کے امام کا انتخاب ہونا ہے۔
لہٰذہ یہاں پر سوال جمہوریت پر نہیں اٹھنا چاہیے کہ یہ جائز ہے یا ناجائز، بلکہ سوال کچھ اور ہونے چاہیں جو علماء کے حلقوں میں زیرِ بحث ہونے چاہیے
1 – ووٹر کی اہلیت کا معیار کیا ہونا چاہیے جو اپنے علاقے سے اہلِ رائے کا انتخاب کرنے کے لئے ووٹ ڈالنے کا حقدار سمجھا جائے گا
2 – اہلِ رائے کی علمی قابلیت اور عملی سیاسی تجربہ کیا ہو گا جس کی بنیاد پر اس کو اہلِ رائے منتخب ہونے کیلئے بطورِ آپشن عوام کے سامنے پیش ہونے کی اجازت دی جائے گی
3 – الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کو کیسے تبدیل کیا جائے کہ وہ جمہوری طریقہ انتخاب کے ذریعہ ایک شرعی طور پر قابلِ قبول حکومت کی تشکیل کر سکے
4 – آئینِ پاکستان کے متعلقہ شقوں میں اہلِ رائے کی اہلیت کو کیسے تبدیل کیا جائے تاکہ کوئی نا اہل مقابلے میں کھڑا ہی نہ ہو پائے اور عوام کے سر سے اہلیت بارے فیصلہ کی ذمہ داری ساقط ہو جائے اور وہ فقط سماجی قبولیت کی نمائندگی کرتے ہوئے اہل امیدواروں میں سے اہلِ رائے منتخب کر لیں
آج علماء کے حلقہ میں جو سوچ غلط العام ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ علماء اہلِ رائے ووٹر کو سمجھ رہے ہیں، جبکہ اہلِ رائے انتخابی امیدوار ہوتا ہے جس کی اہلیت کا تعین آئینِ پاکستان اور الیکشن کمیشن کے قوانین کرتے ہیں نہ کہ ووٹر۔ اگر کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تو آئین پاکستان و الیکشن کمیشن کے قوانین میں موجود اہلیت کا معیار، سکروٹنی کا طریقہ کار اور پھر ان کے نفاذ کی یقین دہانی۔ علماء کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستان میں نافذ جمہوریت بالواسطہ ہے جس میں عوام بلاواسطہ امیر یا صدر یا وزیر اعظم کا انتخاب نہیں کرتے، بلکہ اپنے حلقوں سے اہلِ رائے کا انتخاب کرتے ہیں جو عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے امیر یا صدر یا وزیر اعظم کے انتخاب کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لہٰذا لازمی ہے کہ قومی دھارے میں موجود فکری و اصلاحی جدوجہد کو صحیح سمت دی جائے تاکہ عامۃ المسلمین پر مسلط جہالت اور غلامی کا دور کے خاتمہ کو یقینی بنایا جا سکے۔ لہٰذا فلاح کی طرف سرِ دست جو قدم اٹھایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ علماء ووٹر کی ذمہ داریوں کے متعلقہ شرعی احکام کے بیان کی ناگزیریت کا اعتراف کریں۔ علماء اور عصری علوم میں تعلیم یافتہ اہلِ دانش احباب کا فرض ہے کہ وہ عوام الناس کو جمہوریت بارے جھوٹ بتانے اور سیاست سے غافل کرنے کی بجائے منبر و محراب سے ان کو ووٹ کے متعلقہ شرعی احکامات کی تعلیمات دیں اور سیاسی علوم سے منور کریں تاکہ وہ امامت کے قیام کے لئے اپنا ووٹ بہترین اہل رائے کو دے سکیں۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہو گا جب ووٹر کو اپنے اور اہلِ رائے کے فرائض معلوم ہوں گے تاکہ وہ بہترین اہل رائے کا انتخاب کرنے میں قوم کی مدد کر سکے۔ امام حبیب الماوردی "اہل رائے کے فرائض" کے تحت لکھتے ہیں کہ؛
"جس وقت اہل رائے کسی امام کو مقرر کریں تو سب سے پہلے انہیں یہ غور کرنا چاہیے کہ کون کون لوگ امامت کے اہل ہیں اور ان میں امامت کی کون کون سی شرائط کس حد تک پوری ہیں"۔
چنانچہ امام حبیب الماوری نے ایک ہزار سال جس طریقہ کار کو نقل کر دیا، جو فہقاء کے نزدیک جائز ہے اس کو آج ہزار سال بعد آنے والے علماء مکروہ، حرام، بدعت یا کفر کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اس گمراہ کن روش کی وجہ سے آج اسلام کی دائمی اہلیت پر سوال اٹھ گیا ہے کہ کیا اسلام فی زمانہ تہذیبِ انسانی کی عالمگیر ثقافتی تحریک کی راہنمائی کرنے کے لائق ہے بھی یا نہیں۔ علماء کو تو شکر کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں ہم خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اسلام کے نفاذ کی راہ ہموار کر سکتے ہیں، لیکن اس کے برعکس علماء اپنی ذمہ داریوں سے مطلق راہِ فرار اختیار کر کے نہ صرف غیر سیاسی بنے ہوئے ہیں بلکہ اپنی مداہنت کی وجہ سے سیاسی میدان میں اقامتِ دین کی کاوش کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔
Comments
زبردست
By درویش on December 08, 2024 12:07 AMAdd a Comment