سیاسی و علمی خوارج
اعظم صاحب کا حالیہ کالم بعنوان "خوارج" پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ مفتی اعظم ایک طرف حافظ صاحب کی شان میں رطب اللسان جبکہ دوسری طرف مسلحہ خوارج کے خلاف ضربِ کلیم اللٰہی کا حق ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ مفتی اعظم کا کالم پڑھ کر راقم جیسے کم علم مسلمان کا معاملہ فہمی میں مشکلات کا سامنا کرنا عمومی بات ہے کہ قبلہ مفتی اعظم کے کالم کا کون سا پہلو قرینِ حقیقت ہے۔ حافظ صاحب کی شان میں کیا مفتی اعظم کی رطب اللسانی برحق ہے، یا مسلحہ خوارج کے حق میں انکی ضربِ کلیم اللٰہی بننے کی جھلک برحق ہے۔ جب فیصلہ کرنے میں دقت محسوس کی تو سوچا کہ اپنی حاجت کو عامۃ المسلمین کی عدالت میں رکھ دوں کیونکہ خواص تو فقط خواص کو درپیش مسائل میں راہنمائی کیلئے قلم کشائی کرتے ہیں۔ لہٰذا مناسب ہو گا کہ اپنی الجھن بارے راہنمائی جمہوری انداز میں عوام سے حاصل کی جائے۔
قبلہ مفتی اعظم فرماتے ہیں کہ، "خروج سے مراد شرعی، آئینی اور قانونی حکومت کے خلاف مسلحہ بغاوت کرنا ہے، ایسا گروہ خارجی کہلاتا ہے اور اسکی جمع خوارج ہے"۔
قبلہ مفتی اعظم نے خوارج کی نشاندہی کرنے کی خاطر کسی بھی حکومت کی مشروعیت کو بیان کرنے کیلئے تین اصطلاحات کا استعمال فرمایا ہے جو کہ، "شرعی"، "آئینی"، "قانونی" ہیں۔ یعنی ایک ایسی حکومت جو شرعی، آئینی و قانونی اعتبار سے مشروع قرار پائے اسکے خلاف مسلحہ بغاوت کرنے والے خوارج کہلائیں گے۔ لہٰذا ان تین اصطلاحات اور پاکستان کے موجودہ نظامِ حکم کو لیکر راقم کے ذہن میں چند سوالات ابھرے ہیں جو ذیل میں پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ راقم ان سوالات کو پیش کرے وہ ایک ضروری وضاحت پیش کر دینا بھی ناگزیر سمجھتا ہے۔ کیونکہ راقم کے پاس مفتی اعظم والی رطب اللسانی تو ہے نہیں کہ جب اس عاجز کے سوالات خدانخواستہ جناب حافظ صاحب کی بارگاہ میں پہنچیں تو وہ قرآن خوانی شروع کر دیں۔عین ممکن ہے کہ حافظ صاحب جناب مفتی اعظم کے کالم و رطب اللسانی سے شیریں دہن کے ترش ہونے پر غصہ فرمائیں اور راقم کی سرکاری مہمان نوازی کا حکم صادر فرما دیں۔ لہٰذا راقم واضح کر دینا چاہتا ہے کے اس کے سوالات کا مقصد ہر گز نہیں کہ وہ مفتی صاحب کی رو سے شرعی، آئینی و قانونی قرار پانے والی حکومت کے خلاف کسی مسلحہ بغاوت کی مشروعیت چاہتا ہوں۔ تاہم راقم کا مقصد فقط اتنا ہے کہ ریاست کے نظامِ حکم میں ان کمزوریوں کی نشاندہی کی جا سکے جو اہلِ علم کی مداہنت اور حکماء کی خیانت کی وجہ سے مروج ہیں، اور ان کی وجہ سے خوارج کو مسلحہ بغاوت کے لئے بہانہ سازی کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ لہٰذا نظامِ حکم کی ان کمزوریوں کا قطعی طور پر اذالہ کرنا ناگزیر ہے تاکہ مسلحہ خوارج کی بہانہ سازی کا قلعہ قمعہ کیا جا سکے۔
مفتی اعظم نے فرمایا کہ "شرعی" حکومت کے خلاف مسلحہ بغاوت خروج کہلائے گی، لیکن مفتی اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ کون سی حکومت شرعی کہلانے لائق ہوتی ہے۔ لہٰذا مفتی اعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ "شرعی حکومت" کی عام فہم تشریح بھی فرما دیں۔ راقم کے ذہن میں شرعی حکومت کی جو تفہیم موجود ہے وہ قبلہ مفتی اعظم کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے تاکہ ممکنہ خطا کی صورت میں راقم کی اصلاح بھی فرما دیں۔ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت سورۃ المائدہ کی آیت 48 میں فرماتا ہے کہ "لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا"۔ آیت مبارک کا ترجمہ ہے کہ، "ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے الگ شریعت (قانون) اور منہج (قانونی طریقہ کار) بنائی ہے"۔
اللہ عزل وجل کے فرمان عظیم الشان کو سامنے رکھتے ہوئے راقم کو جس بات کی سمجھ آتی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ ﷻنے اپنی تکوینی بادشاہت میں سیاسی اعتبار سے اپنی حاکمیت اعلیٰ کے نفاذ کی خاطر جو قانونی مادہ نازل فرمایا وہ "شریعت" ہے۔ جبکہ آقا کریم سیدی عالم ﷺ نے جس عملی انداز میں شریعت (قانونی مادہ) سے احکام وضع فرمائے اور جس طریقہ کار کو اپناتے ہوئے ان احکام کا عادلانہ نفاذ فرمایا وہ سنت یا منہج یا قانونی طریقہ کار ہے۔ کیونکہ آقا کریم سیدی عالم ﷺ کی سنت مبارک پر قرآن کی شہادت موجود ہے کہ وہ بھی وحی کا نتیجہ ہے جیسا کہ قرآن مجید فرقان حمید میں سورۃ النجم آیت 3 اور 4 میں فرمایا گیا کہ، "وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى۔ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى"۔ لہٰذا بحیثیت عام مسلمان اگر مزید آسان انداز میں اپنے فہم کو قبلہ مفتی اعظم کی عدالت میں پیش کرنا چاہوں تو وہ یہی ہے کہ؛
قرآن مجید فرقان حمید جو کہ وحی متلو ہے وہ اسلام کا بنیادی قانونی مادہ ہے جسے شریعت کہتے ہیں
جبکہ
سنت جو کہ وحی غیر متلو ہے اسلام کا بنیادی قانونی طریقہ کار ہے جسے سنت یا منہج کہتے ہیں
لہٰذا قرآن و سنت پر مبنی جامع نظامِ حکم کو "اسلام" یا "دینِ اسلام" کہا گیا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں "كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ" کے باب "بَابُ مَا جَاءَ فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ" میں آیا یے کہ، "الدين الجزاء في الخير والشر"، یعنی، "دین خیر اور شر کی جزا کا نام ہے"۔ مزید وضاحت کیلئے فرما دیا گیا کہ، "كما تدين تدان"، یعنی، "ادلے کا بدلہ"۔ حضرت قتادہؒ نے فرمایا کہ، "الدين: الجزاء"، یعنی، "دین: اجر" ہے، اور اجر کا اطلاق اچھائی اور برائی دونوں پر ہوتا ہے۔ چنانچہ، "دین شر و خیر کے محاسبہ کا کامل نظام ہے"۔ خیر کی جزا اور شر کی سزا، یعنی اسلام کے الٰہیاتی نظامِ حکم کے نفاذ کے عمل کو اقامتِ دین کہا جاتا ہے۔ اللہ ﷻ نے اپنی ذاتِ باری تعالیٰ کو سورۃ الفاتحہ [سورۃ 1] آیت 3 میں، "مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ" کہا، یعنی، "محاسبہ کے دن کامالک"، جس دن ہر خیر و شر کا برابر بدل عطا کر دیا جائے گا۔ چنانچہ دین ایک وسیع اور جامع اصطلاح ہے جو اسلام کے نورِ توحید کے اِتمام کے الٰہیاتی منصوبہ کے مقاصد کی خاطر تہذیبِ انسانی کی ثقافتی تحریک میں انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں "عدل و انصاف" یا "سزا و جزا" کا نظام ہے، جس کی اقامت "نفاذِ اسلام" کہلاتی ہے۔
مفتی اعظم کی بارگاہ میں عرض ہے کہ اگر تو راقم کا یہ فہم درست ہے تو اس صورت میں شرعی حکومت کی تعریف یہی بنے گی کہ، "ایک ایسی حکومت جو ریاست کے سماج میں انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں دینِ اسلام کے جامع فلاح کے تصور کو صورتگر کرنے کیلئے قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام کے الٰہیاتی نظامِ حکم کو قائم کرتی ہے شرعی حکومت کہلاتی ہے"۔ اگر مفتی اعظم اس تعریف کی مزید تصحیح فرما دیں گے تو راقم سمجھتا ہے کہ میرے جیسے کم علم مسلمانوں کیلئے وہ اصلاح عظیم راہنمائی ہو گی۔ اور اگر مفتی اعظم اس تعریف و مندرجہ بالا فہم کی توثیق فرماتے ہیں تو اس سے "شرعی، آئینی و قانونی" حکومت کی جو صورت سامنے آتی ہے توہ کچھ ایسی ہے کہ؛
ایک ایسی حکومت جہاں نظامِ حکم کے بنیادی قانونی مادہ کے طور پر "قرآن و سنت" کو اختیار کیا جائے؛
ایک ایسی حکومت جہاں حاکم کی اہلیت "مجتہد مطلق" قرار پائے؛
ایک ایسی حکومت جہاں وضع قانون کا طریقہ کار "اجتہادِ مطلق" قرار پائے؛
ایک ایسی حکومت جو اپنے تمام تر تعزیری، انتظامی، طریقہ کاری قوانین کو وضع کرنے کیلئے قرآن، سنت، اجماع اور مجتہد کے قیاس کو قانونی دلائل کے طور پر اختیار کرے؛
لہٰذا مفتی اعظم سے درخواست ہے کہ
کیا ریاستِ پاکستان میں مندرجہ بالا لوازمات کو پوری طرح اپنانے کی جدوجہد کی جا رہی ہے؟
کیا پاکستان کا آئین قرآن و سنت کو ریاستِ پاکستان میں نظامِ حکم کا بنیادی قانونی مادہ قرار دیتا ہے؟
کیا پاکستان کا آئین مجلسِ قانون ساز کو "اجتہادِ مطلق" کی شرعی اہلیت پر استوار کرنے کیلئے شرعی و عصری علوم کے ماہرین کو مجلسِ قانون ساز کا حصہ بنانے کی یقین دہانی کرتا ہے؟
کیا پاکستان کا آئین ریاستِ پاکستان میں غیر اسلامی نظریات کی سیاست پر پابندی عائد کرتا ہے؟
اگر پاکستان کا آئین ریاستِ پاکستان میں غیر اسلامی نظریات کی سیاست پر پابندی عائد کرتا ہے تو پھر سیکولر، سوشلسٹ، کیپیٹالسٹ، کمونسٹ پارٹیوں کو پاکستان میں غیر اسلامی نظریات کی سیاست کی اجازت کیوں ہے؟
کیا پاکستان کا آئین ریاستِ پاکستان میں غیر اسلامی قوانین کی ممانعت کرتا ہے؟
اگر پاکستان کا آئین ریاستِ پاکستان میں غیر اسلامی قوانین کی ممانعت کرتا ہے تو پاکستان میں ٹرانسجینڈر ایکٹ کی صورت میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ کیوں فراہم کیا جاتا ہے؟
اگر پاکستان کا آئین ریاستِ پاکستان میں غیر اسلامی معاشرت کی ممانعت کرتا ہے تو پاکستان میں مخلوط نظامِ تعلیم کیوں ہے؟
اگر پاکستان کا آئین ریاستِ پاکستان میں غیر اسلامی تعلیم و تربیت کی ممانعت کرتا ہے تو پاکستان کے نظام تعلیم میں دین و عصری علوم کی جدائی کیوں ہے؟
اگر پاکستان کا آئین ریاستِ پاکستان میں غیر اسلامی سماجی اقدار کی ممانعت کرتا ہے تو پاکستان کے سماج میں ہر طرف عریانی و فحاشی کیوں ہے؟
اگر پاکستان کا آئین اللہ عز و جل کی حاکمیتِ اعلیٰ کی یقین دہانی کرتا ہے تو ریاستِ پاکستان نے بغیر شرعی تحفظات کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے سیکولر معاہدوں کی توثیق کیوں کی ہوئی ہے؟
اگر پاکستان کا آئین اللہ عز و جل کی حاکمیت اعلیٰ کی یقین دہانی کرتا ہے تو ریاستِ پاکستان میں ماورائے شریعت و آئینِ پاکستان اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کی حاکمیتِ اعلیٰ کا نفاذ کیوں موجود ہے؟
قبلہ مفتی صاحب، یہ عملی بے اعتدالیاں نہیں ہیں، بلکہ یہ اعتقادی انحراف ہے۔ اللہ عز و جل کی بیان کر دہ صریح حرمتوں کو حلت میں بدلا جا رہا ہے، اللہ عز و جل سے واضح جنگ جاری رکھی جا رہی ہے، اللہ عز و جل کے دین کو دیس نکالا دیا جا رہا ہے، غرضیکہ حکومتِ پاکستان صریح انداز میں انکارِ اسلام کر چکی ہے۔ اپنی بات کی تائید میں آئی سی سی پی آر کی ایک مثال آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ ابتدائی طور پر حکومتِ پاکستان نے اس کی تمام متنازع شقوں پر شریعت و آئین کے تابع نفاذ کی شرط عائد کی۔ تاہم جب اسی معاہدہ کی ماورائے شریعت توثیق کو جی ایس پی پلس کے تجارتی کوٹہ کے ساتھ مشروط کر دیا گیا تو وہ تمام شرائط جو اس سیکولر قانون کے نفاذ کو تابع شریعت و آئین پاکستان کرتی تھیں بالآخر ختم کر دی گئیں۔ قبلہ مفتی اعظم کو معلوم ہے کہ شرعی ریاست کے خلاف دین بیزار سیکولر حکومت کی اس سیاسی بغاوت کا نتیجہ کیا نکلا؟ آئین پاکستان کہتا ہے کہ پاکستان کے تمام قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالا جائے گا۔ جبکہ ٹریٹی امپلیمنٹیشن سیل کہتا ہے کہ پاکستان کے تمام قوانین کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے سیکولر معاہدوں کی روشنی میں سیکولر بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ قبلہ مفتی اعظم ضرور جانتے ہوں گے کہ پاکستان کا نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کہتا ہے کہ پاکستان میں بلاسفیمی کے انسداد کے متعلقہ قوانین حکومتِ پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے متصادم ہیں اور ان کو ختم کرنا حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا جب تک ان کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک ان قوانین کے (بین الاقوامی انسانی حقوق کے سیکولر معاہدوں کی رو سے) غلط اطلاق و نفاذ کو روکنے کیلئے پروسیجرل اور جوڈیشل سیف گارڈز بنائے جائیں۔ جناب مفتی اعظم ضرور جانتے ہوں گے کہ حکومتِ پاکستان اقوامِ متحدہ کو یقین دہانی کرواتی نظر آتی ہے کہ اقوامِ متحدہ گستاخوں کے حقوق کے تحفظ بارے پریشان نہ ہو۔ کیونکہ توہین رسالت کے قانون میں نچلی عدالت کی کسی بھی سزا کو اعلیٰ عدالتیں برقرار نہیں رکھتیں اور نہ ہی ان قوانین کے تحت کسی کو سزا دی جاتی ہے۔
قبلہ مفتی اعظم!
کیا یہ فقط عملی بے اعتدالیاں ہیں؟
کیا ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کے قوانین کو دجل کے ساتھ ناقابلِ نفاذ بنا دینا اور گستاخون کیلئے پروسیجرل اور جوڈیشل سیف گارڈ بنانا عملی بے اعتدالی ہے؟
کیا عقیدہ ختم النبوۃ ﷺ کے دفاع کے قوانین کو ناقابلِ نفاذ بنا دینا اور منکرین ختم النبوۃ کے تحفظ کیلئے پروسیجرل اور جوڈیشل سیف گارڈ بنانا عملی بے اعتدالی ہے؟
کیا شعائر اسلام کے دفاع کے قوانین کو ناقابلِ نفاذ بنا دینا اور گستاخوں کے دفاع کیلئے پروسیجرل اور جوڈیشل سیف گارڈ بنانا عملی بے اعتدالی ہے؟
کیا اللہ جل جلالہ کی حاکمیت اعلیٰ کا عملی انکار کرتے ہوئے دجل کے ساتھ اقوامِ متحدہ و یورپی یونین جیسے طاغوت کی حاکمیتِ اعلیٰ کو قبول کرنا اور عامۃ المسلمین پر نافذ کرنا عملی بے اعتدالی ہے؟
قبلہ مفتی اعظم! اللہ عز و جل کو حاضر ناظر جان کر بتائیں کہ کیا ایسی حکومت شرعی کہلا سکتی ہے جو عملی اعتبار سے حاکمیتِ اعلیٰ اقوامِ متحدہ کی تسلیم کرے، ناموس رسالت، عقیدہ ختم النبوۃ و شعائر اسلام کے دفاع بارے قوانین کو ایک تجارتی معاہدہ کے عوض کالعدم کرنے پر رضامند ہو جائے، اور سیکولرازم جیسے غیر اسلامی کفریہ نظریات کی سیاست کی شرعی ریاست میں اجازت دے؟
قبلہ مفتی اعظم! اللہ عز و جل کو حاضر ناظر جان کر بتائیں کہ ان اعتقادی بے اعتدالیوں کے بعد کیا حکومتِ پاکستان کے پاس اطاعت کا کوئی مشروع حق باقی رہتا ہے؟
قبلہ مفتی اعظم! یقین جانیں مسلحہ خوارج جو شرعی ریاست کے خلاف بغاوت کرتے ہیں وہ تو کلاب النار جہنم ہیں ہی۔ لیکن ان سیاسی خوارج بارے کیا فرمائیں گے جن کی کل سیاست معاذ اللہ ایک شرعی ریاست میں اللہ عز و جل، و رسول اللہ ﷺ و کل مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوششوں پر استوار ہے۔ اور ان علمی خوارج بارے کیا فرمائیں گے جو ان تمام تر اعتقادی انحرافات کو عملی بے اعتدالیاں کہتے ہوئے ان سیاسی خوارج کی کفریہ سیاست کو اپنی رطب اللسانی سے شریعت کا چوغہ پہناتے ہیں۔
قبلہ مفتی اعظم! آخر میں آپ کی خدمت میں دانائے راز شاہینِ کافوری سیاسی مجدد حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دو عدد شعر پیش کر کے اجازت چاہوں گا
دینِ شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ
دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۂ رُوباہی
ہو اگر قُوّتِ فرعون کی در پردہ مُرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کِلیم اللّٰہی
انا للہ و انا الیہ راجعون
Comments
کیا مفتی اعظم پاکستان صاحب آپ کو جواب دیں گے ؟؟ آپکی لکھی گئی تحریر کو ہضم بھی کرپائیں گے ؟ اور اللہ عزوجل کو حاضر وناظر جان کر سچ کا سامنا کریں؟؟
By Nooram on December 08, 2024 10:22 AMمفتی صاحب جواب نہیں دیں گے ۔اب تو بلکل ہی نہیں دیں گے کیونکہ یہ صلح کلیت ان کو گھر تک چھوڑ کر آئے گی 🫣
By Rana Shahzad Hussain Rizvi on December 08, 2024 04:28 PMAdd a Comment