Muhammad is not the father of [any] one of your men, but [he is] the Messenger of Allah and last of the prophets. And ever is Allah, of all things, Knowing. { Translation } مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَ لَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ * وَ كَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

پاکستان آزاد خود مختار جمہوری ملک میں فوجی عدالتیں کیوں؟

ابو محمد December 22, 2024 115 views 0 likes

Like Article

فوجی عدالتوں کی تاریخ قدیم روم سے موجود ہے تاہم جدید دور میں فوجی عدالتوں کے تصور کو نوآبادیاتی طاقتوں نے نوآبادیاتی علاقوں میں اپنے اقتدار اور قوانین کو بالجبر نافذ کرنے کے لیے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا۔ نوآبادیاتی دور میں، یورپی طاقتوں نے مقامی مزاحمت کو کچلنے اور اپنے نوآبادیاتی قوانین کے بالجبر نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے نو آبادیاتی خطوں میں فوجی عدالتیں قائم کیں۔ یہ عدالتیں اکثر مقامی لوگوں کو نوآبادیاتی ریاست کے خلاف بغاوت یا عوام کی طرف سے جاری حقِ خودارادیت کی جدوجہد کو کچلنے کیلئے قائم کی گئی تھیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے، نوآبادیاتی قوتوں نے نوآبادیاتی خطوں میں مروجہ عدالتی ڈھانچے، قانونی فریم ورک اور طریقہ کار وغیرہ پر مبنی نظام عدل کو مکمل پر تباہ کر دیا اور اسکی جگہ نوآبادیاتی قوانین اور فوجی عدالتی نظام نے لے لی۔ فوجی عدالتوں نے ظالمانہ انداز میں مقامی آبادی کو غلامی میں جکڑنے کیلئے نو آبادیاتی قوتوں کی مدد کی جس کی بنا پر وہ صدیوں تک اپنا تسلط برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ سلطنتِ عثمانیہ کو تحلیل کر کے جن مسلم خطوں میں یہ ظالمانہ فوجی عدالتی نظام رائج کیا گیا ان میں قابلِ ذکر خطے درجِ ذیل ہیں۔


1. برٹش انڈیا: ایسٹ انڈیا کمپنی نے 18ویں صدی میں ہندوستان میں فوجی عدالتیں قائم کیں تاکہ کمپنی کے خلاف جرائم کے لیے ہندوستانیوں پر ظالمانہ نوآبادیاتی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جا سکے۔ بعد میں، برطانوی راج نے اپنی ظالمانہ گرفت برقرار رکھنے کے لیے اس ایسٹ انڈیا کمپنی کے قائم کردہ فوجی عدالتی نظام کو وسعت دی۔

2. فرانسیسی الجزائر: 19ویں صدی کے دوران الجزائر میں فوجی عدالتیں مقامی مزاحمت کو دبانے اور نوآبادیاتی قوانین کو ظالمانہ انداز میں نافذ کرنے کے لیے قائم کی گئیں۔

3. برٹش افریقہ: مختلف افریقی ممالک میں نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف بغاوت کو کچلنے کے لیے برطانیہ نے فوجی عدالتیں قائم کیں۔

نوآبادیاتی قوتوں کی قائم کی گئی فوجی عدالتوں کی وراثت آزادی کے بعد بھی کئی ممالک کے قانونی نظام کو متاثر کرتی آ رہی ہے۔ نو آبادیاتی قوتوں کے جانے کے بعد انہی کے منظورِ نظر اشرافیہ کو اقتدار سونپے گئے اور اس اشرافیہ نے قومی سلامتی سے متعلقہ مسائل کو بہانہ بنا کر اپنی ظالمانہ اجارہ داری کو یقینی بنانے کیلئے فوجی عدالتوں کا نظام دوبارہ رائج کیا۔ پاکستان میں سب سے پہلے فوجی عدالتیں 1951 میں عام شہریوں پر مقدمات چلانے کے لیے قائم کی گئیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ختم النبوۃ ﷺ کا تھا اور افواج میں کمیشن آفیسرز بالخصوص فرسٹ اینڈ سیکنڈ ٹیئر کی اکثریتی کمان قادیانیوں پر مشتمل تھی جنہوں نے رائل برٹش آرمی میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ چنانچہ نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ اور تحفظ ختم النبوۃ ﷺ کی تحریکوں کو کچلنے کیلئے یہ فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ بعد ازاں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے ذریعہ ان عدالتوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔

خلاصہ یہ کہ فوجی عدالتوں کی موجودگی قطعی طور پر ظلم و بربریت اور استبدادی شکنجے کی نشاندہی کرتی ہے جسے سیاسی حلقوں کی جانب سے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ جب قومی سطح پر عدالتی ڈھانچا موجود ہے، قانونی فریم ورک موجود ہے۔ دہشتگردی اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے ارتکاب پر مبنی جرائم کے انسداد کے قوانین موجود ہیں، تو اس صورت میں الگ سے فوجی عدالتوں کا قیام نو آبادیاتی قوت اور ذہنیت کی علامت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی ادارہ یا کوئی طبقہ یا کوئی قوت خود کو آج بھی مارشل ریس تصور کرتی ہے۔ پاکستانی جمہور کو اپنا غلام تصور کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان پر وہ قانون نافذ نہیں ہو سکتا جو پاکستانی جمہور پر نافذ عمل ہے۔ ان کے خلاف جرم ہو یا ان کی طرف سے جرم کا ارتکاب ہو ہر دو صورتوں میں مقدمات کا فیصلہ وہ عدالتیں نہیں کر سکتیں جو عدالتیں پاکستانی جمہور کے فیصلے کرنے کی مجاذ ہیں۔ لہٰذا وہ پاکستانی جمہور سے بالاتر اشرافیہ ہے یا مارشل ریس ہے یا ریاست کے اندر ایک ریاست ہے جو اپنا متوازی نظام چلا رہی ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت، انکی پالیسیز، ان کے طرزِ سیاست سے لاکھ اختلاف ہیں لیکن اس کے باوجود بحیثیت پاکستانی شہری پاکستانی جمہور کے ساتھ سیکنڈ کلاس شہری کی طرح کا رویہ قطعی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

ریاست ماں ہوتی ہے، اور قانون کا نفاذ ہمیشہ اس انداز میں ہونا چاہیے کہ تفریق کی بجائے اتفاق کا پہلو سامنے آئے، تنازعات کی بجائے اتحاد قائم ہو، احساسِ کمتری کی بجائے اپنائیت اور اطمنیان پیدا ہو، بحران کی بجائے استحکام پیدا ہو۔

لہٰذا! بحیثیت پاکستانی شہری راقم کا مطالبہ ہے کہ

1. جس نے جو جرم کیا ہے اس کو ضرور سزا دی جانی چاہیے لیکن اس کا مقدمہ قومی عدالتی نظام میں چلایا جائے۔

2. تحریک انصاف کی قیادت کا جرم سنگین ہے کیونکہ انہوں نے تفریق، تزہیک، انتشار اور اشتعال کی سیاست کی، انکو ان کے جرائم کی سزا ضرور دی جائے لیکن کارکنان جو عوام پاکستان ہیں، انکے ساتھ ریاست نرمی کا پہلو اپنائے۔

3. پاکستان کو ایک آزاد خود مختار ریاست بنانے کیلئے اور سویلین بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے فوجی عدالتوں کو مطلقاً ختم کیا جائے اور مارشل ریس یا فوجی طبقات کو بھی قومی قانون اور عدالتی نظام کے آگے جوابدہ بنایا جائے

4. تحریک انصاف سے وابستہ عوام سے گزارش ہے شخصیات کے بت تراشنے سے پرہیز کریں اور نظریات کی طرف آئیں۔ اسلام کسی صورت میں ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دیتا جس سے الٰہیاتی مقاصد کی امین ریاست کی سالمیت خطرہ میں جائے۔

تحریک انصاف کے کارکنان سے آخری بات! اگر کسی مسجد پر کوئی فاسق فاجر قبضہ کر کے اس میں جوا خانہ کھول دے تو اس صورت میں مسجد نہیں گرائی جاتی بلکہ مجرمین سے مسجد آزاد کروا کے، پاک کر کے بطورِ مسجد بحال کیا جاتا ہے۔ نواز لیگ ہو، پیپلزپارٹی ہو یا تحریک انصاف؛ ان میں سے کوئی بھی وطنِ عزیز پاکستان کو مسجد نہیں بنانا چاہتا۔ یہ تمام پارٹیاں پاکستان کو ایک جوا خانہ کے طور پر ہی رکھنا چاہتی ہیں لیکن ان کی سیاسی جنگ و جدل کا واحد مقصد فقط اتنا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے اپنے جواخانہ قائم کرنے کی جنگ لڑ رہی ہیں تاکہ ان کا کاروبار ترقی کرے۔ لیکن پاکستان لا الٰہ الا اللہ کے نام پر قائم ہونے والی مسجد ہے۔ خدارا تحریک انصاف کے کارکنان اسلام کی طرف آئیں۔ پاکستان فقط اسی صورت میں مسجد بن سکتا ہے جب یہاں عملی طور پر قطعی معنوں میں اللہ عز و جل کی حاکمیت اعلیٰ و سیدنا رسول اللہ ﷺ کی تشریعی حاکمیت کا نفاذ یقینی بنایا جائے اور تفویضی اختیارات (حکومت) اہل طبقات کو سونپے جائیں۔

آج بھی وقت ہے

اسلام، پاکستان اور عوام کی خاطر نظریاتی قیادت کو تلاش کریں جو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق آپ لوگوں کی سیاسی راہنمائی کرے

وما توفیقی الا باللہ

Comments

No comments yet.

Add a Comment