کرسمس میں شمولیت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
عمرانیات کا اصول ہے کہ مغلوب ثقافتیں غالب تہذیبی قوت کی ثقافتی اقدار سے متاثر ہوئے بغیر اور انکو اپنائے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں۔
دورِ حاضر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کے علماء، فوجی جرنیل، سیاستدان غیرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا اشرافیہ مذہبی رواداری کے نام پر کرسمس میں بڑھ چڑھ شرکت کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے اور پھر عوام میں بحث شروع ہو جاتی ہے کہ کرسمس کی مبارک دینا جائز ہے یا ناجائز، شرک ہے یا توحید، معروف ہے یا منکر وغیرہ وغیرہ
راقم کا پہلا سوال یہ ہے کہ آخر مقتدر اشرافیہ کرسمس منانے پر بضد کیوں ہے اور وہ بھی کلیسا میں جا کر؟
راقم کا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر آج دین غرابت و اجنبیت کی حالت میں نہ ہوتا بلکہ محکم و معروف دین کی صورت میں نظامِ عالم ہوتا تو کیا پھر ایسے ہی مسلمان اشرافیہ چرچ میں جا کر کرسمس منانے اور صیہونیت کی خوشنودی حاصل کرنے میں مقابلہ بازی کرتا؟
برادران اسلام!
اگر آپ ان مباحث میں الجھ کر بس محظوظ ہوتے رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہر سال 25 دسمبر کو ان مباحث کا وسیع تر موقع ملتا رہے گا آپ خوب مباحث کریں؛
لیکن
ان مباحث سے اشرافیہ اپنی حماقتوں سے باز آنے والا نہیں اور بتدریج یہ کرسمس ثقافتی تہوار بن کر آپ کے گھروں تک پہنچ جائے گا اور آپ بے بس ہو کر رہ جائیں گے۔
اور
اگر آپ اس کا حقیقی حل چاہتے ہیں تو پھر آپ کو مسئلہ کی بنیادی وجہ کی تشخیص کرنی ہو گی تاکہ اس کا علاج کیا جا سکے۔
برادران اسلام! آج جو سیاسی و مذہبی اشرافیہ کرسمس منانے کیلئے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے میں کوشاں نظر آ رہا ہے اسکی وجہ یہ نہیں ہے کہ
1. کرسمس کی مذہبی حیثیت ثقافت میں ڈھل گئی ہے اور اب یہ عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں رہی
2. اسلام میں مشرکین و غیر مسلموں کی عیدوں میں شمولیت کے نئے دلائل نظر آ گئے جو آج سے قبل 1400 سال تک مسلمانوں کو نظر نہ آ سکے
3. اشرافیہ کو کرسمس کی حقیقت اور اس بارے شرعی حکم کا علم نہیں، بالخصوص مذہبی اشرافیہ کو
بلکہ
برادرانِ اسلام! راقم کا موقف ہے کہ اس کرسمس اور اس جیسے دیگر تمام تر معاملات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے تشخص کو تہذیبی قوت سے کم کر کے اسکو فقط ثقافت کا درجہ دینے کی بدترین حماقت ہے جس نے ان تمام خرابیوں کو جنم دیا ہے۔ تہذیبی قوت وہ ہوتی ہے جو عالمگیر سطح اپنے سیاسی نظامِ حکم کو نافذ کرتی کے، اور دنیا میں سائنس اور تحقیق کے میدان میں اپنا لوہا منواتی ہے، اور اپنی ثقافت کے موفق عالمگیر سماجی اقدار اور ضابطہ اخلاق دیتی ہے جس کو دنیا کی تمام ثقافتیں اپنائے بغیر اپنا وجود برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔
چنانچہ، کرسمس کے عام اور مقبول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عیسایت کا مذہبی ثقافتی تہوار ہے اور صیہونی عیسایت اس وقت عالمگیر تہذیب کی روحِ رواں قوت و مقتدر ثقافت ہے۔ عمرانیات کا اصول رہا ہے کہ مغلوب ثقافتیں غالب تہذیبی قوت کی مقتدر ثقافت سے مرعوب ہوئے بغیر اپنے وجود کے بقا کو یقینی نہیں بنا سکتیں۔
لہٰذا! مجرم وہ ہیں جنہوں نے اسلام کے غالب تہذیبی قوت کے حامل تشخص کو فقط ثقافت تک محدود کر کے اسلام کی توہین کی اور عالمگیر صیہونیت کے ہاں مسلمانوں کو مغلوب کر دیا۔ اب جو فساد برپا ہو چکا ہے یہ کسی فتویٰ یا دلیل سے رکنے والا نہیں ماسوائے اس بات کے کہ سیاسی، مذہبی و سماجی طبقات کی جانب سے اسلام کے سیاسی تشخص کی جو توہین کی جا رہی ہے اس کی نفی کی جائے اور اسلام کے غالب تہذیبی تشخص کا احیاء یقینی بنایا جائے،
تبھی اسلامی ثقافت مقتدر ہو کر ترقی کرے گی۔
برادران! عالمگیریت کے حصول کی خاطر عمرانیات کا یہ اصول قرآن مجید فرقان حمید سے ماخوز ہے جس کی خاطر اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر سیاست و جہاد کا الٰہیاتی طریقہ کار عطا فرمایا گیا۔ عیسائی صیہونیت نے اس کو حقیقت پسندی (Realism) کے فلسفہ میں ڈھالا اور اپنے سیکولر ضابطہ اخلاق کے اخلاط کے ساتھ اپنا کر صیہونیت کا عالمگیر تسلط قائم کر لیا
جبکہ
مسلمان سیاست و جہاد کو ترک کر کے ذلیل و رسوا ہو کر رہ گئے۔
سیاسی مجدد حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی اصول بارے اپنائی گئی غفلت اور پھر اس کی تباہ کاریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ؛
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
برادران! ایک لمحہ کیلئے سوچیں کہ دینِ اسلام اگر بطورِ نظامِ حکم عالمگیر سطح پر نافذ ہو، مسلمان انسانیت کی ہر میدان میں راہبر و راہنمائی کر رہے ہوں، اسلامی نظام عالم قائم ہو تو اس صورت میں کیا کوئی مسلمان چاہے گا کہ وہ جاکر عیسائیوں کے گرجا میں کرسمس منائے؟
ہر گز نہیں! بلکہ معاملہ اسکے برعکس ہو گا
عیسائی، یہودی اور دیگر تمام مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ؛
موالد النبی ﷺ منا کر؛
سیدی عالم ﷺ کا خلق عظیم بیان کر کے،
سیدی عالم ﷺ کے رحمت اللعالمین ہونے کا بیان کرکے؛
اور
اسلامی ثقافت کی ہر قدر کا احترام کر کے اسلامی نظامِ عالم کی خوشامد کرتے نظر آ رہے ہوتے۔
لیکن برادران! کیونکہ اب
1. علماء یا غیر سیاسی ہو گئے یا حکومتی اور ہر دو کی منافقت کی وجہ سے دینِ اسلام غیر سیاسی کر دیا گیا؛
2. اسلام کے تہذیبی تشخص کو ثقافت تک محدود کر دیا گیا؛
3. صیہونی عیسائت کی سیکولر لبرل تہذیبِ نوی کو حقیقت تسلیم کر لیا گیا؛
4. احیاء اسلام کی جستجو دلِ مسلم سے معدوم ہو گئی
5. ذلیل ترین لوگ مسند ارشار و منبر و محراب پر قابض ہو گئے
6. وہن نے حکمرانوں کو کافروں سے زیادہ ذلیل و حقیر بنا دیا
تو ان تمام تر اعمال کا نتیجہ موجودہ حالات میں یوں صورتگر ہوا ہے کہ
ایک طرف
صیہونی عیسایت کی سیکولر تہذیبِ نوی دن رات سیدی عالم ﷺ کی شانِ اقدس میں ہر سطح کی گستاخی کی عام وکالت کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اسے بنیادی انسانی حق کے طور پر عالمگیر ثقافتی قدر بنا دیا جائے تاکہ (نعوذ باللہ) ہر انسان کو گستاخی کا حق مل جائے
دوسری طرف
امتِ مسلمہ کا سیاسی، مذہبی، عسکری و سماجی اشرافیہ صیہونی عیسائت کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے اور سیکولر تہذیب نوی کی رضا و خوشامد کیلئے کرسمس اور صیہونیت کی دیگر تمام ثقافتی اقدار کو جائز بنانے کے چکروں میں دن رات محنت کر رہی ہے
اور
ذلیل لوگ اپنی اس مداہنت اور وہن کو مذہبی رواداری اور امن پسندی کے لبادہ میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں
برادران اسلام! یاد رکھیں راقم کو غرض نہیں کہ
1. کرسمس بارے فقہاء کی رائے کیا ہے؛
2. کرسمس مذہبی نوعیت کا تہوار ہے یا ثقافتی تہوار ہے
3. کرسمس کے تہوار کی ارتقائی تاریخ کیا ہے اور اس کا اجراء کس نے کیا
4. کرسمس میں مسلمان کے شامل ہونے پر کیسی نیت ہو تو کیسی حد لگتی یے وغیر وغیرہ
راقم بس اتنا جانتا ہے کہ؛
دینِ اسلام کے مقاصد کا عملی انکار کر کے، اللہ رب العزت کی حاکمیت اعلیٰ و سیدنا رسول اللہ ﷺ کی تشریعی حاکمیت سے بغاوت کر کے؛
فقط
روٹی کپڑے اور مکان کی خاطر
کفر کی رضا کے حصول کی خاطر اٹھا ہوا ہر قدم، کیا ہوا ہر عمل، بولا ہر لفظ کفر ہی شمار ہو گا
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی نسلیں مسلمان رہ سکیں تو آپ کا سب سے پہلے اس مذہبی نوعیت کے طاغوت کا انکار کرنا ہو گا جو بظاہر احبار علماء کہلاتے ہیں، لیکن کفریہ صیہونی نظام عالم کے ساتھ تملق، مداہنت اور چاپلوسی میں ہر منافقت کی ہر حد عبور کر گئے ہیں؛
اور
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم بالصواب
Comments
No comments yet.
Add a Comment