پاکستان افغانستان جنگ [فتنہ]
ماضی قریب میں قبائلی علاقوں میں بڑھتے ہوئے تنازعات اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان سرحد پر حالات کشیدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ طرفین کی جانب سے مختلف قسم کے دعوے منظرِ عام پر آ رہے ہیں جن کا حقیقت سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ ایک طرف سے حملہ آوروں کو خوارج کہا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف سے اعلائے کلمۃ اللہ کا نام لیکر بہانہ سازیاں کی جا رہی ہیں۔ اعلائے کلمۃ اللہ کا دعویٰ کرنے والے پہلے کلمۃ اللہ کے سیاسی معنی جان لیتے تو اپنی خواہشِ نفس کی تسکین کی خاطر کی جانے والی اس حماقت کو اعلائے کلمۃ اللہ کہنے سے ہچکچاتے، اور خود کو اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے حقیقی معنوں میں تیار کرتے۔ اگر کلمۃ اللہ کی بات کی جائے تو الحمد سے لیکر والناس تک کلمۃ اللہ ہے اور عالمگیر تہذیبِ انسانی کی اس کی روشنی میں راہنمائی اور تصدیق کی خاطرکی جانے والی جدوجہد کو اعلائے کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے۔ جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کا ایک ذریعہ ہے جس سے کفر کی حاکمیت کا خاتمہ کیا جاتا ہے جبکہ سیاست اعلائے کلمۃ اللہ کا دوسرا ذریعہ ہے جس سے تہذیب کا تذکیہ کر کے اس کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اعلائے کلمۃ اللہ کے اس تمام عمل میں تمام عصری تہذیبی اقدار کی تصدیق کے دوران معروف کو رائج رکھا جاتا ہے، جبکہ منکر کا خاتمہ کر کے انسانیت کے استحصال کے خاتمہ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اسی اصول کی وجہ سے اسلام نے کبھی بھی دور میں مروجہ تہذیب کا کلی خاتمہ نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ اس کا تذکیہ کیا ہے۔ سیدنا رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارک سے یہی عمل ثابت ہے کہ آپ نے ہر اس تہذیبی قدر کو قبول فرمایا جو قرآن و سنت سے متصادم نہیں تھی اور انسانیت کی بہترین راہنمائی میں مفید و معاون تھی، جبکہ ہر اس تہذیبی قدر کا خاتمہ فرمایا جو قرآن و سنت سے متصادم اور انسانیت کے جانی، مالی، فکری، شعوری استحصال پر مبنی تھی۔ سیدنا رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خلفاء رضوان اللہ علیہم اجمعین جب بھی لشکر لیکر کسی قوم کی طرف تشریف لے گئے اور اپنا دین پیش کیا تو اس قوم کو کامل صورت میں پیش کیا، جزوی دین کبھی بھی پیش نہیں کیا گیا۔ الحمد تا والناس جو نازل ہوا اس میں تہذیب کی راہنمائی کا جو جامع تصور موجود ہے اس کو کامل صورت میں نافذ فرمایا ہراسی کی راہنمائی میں تہذیب کی عصری اقدار کی تصدیق فرمائی گئی۔ لہٰذا اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جہاد سے قبل آپ کو اسلام کا ایسا ریاستی تصور عملی صورت میں نافذ دکھانا ہو گا جو امتِ مسلمہ کے تمام مسائل کے حل اپنے اندر رکھتا ہو۔ صرف اسی صورت میں اِتمام حجت قائم ہو سکے گا تاکہ جس قوم کو آپ اس اسلام کی طرف بلا رہے ہیں اگر وہ اسکو اپنانے سے انکار کرتی ہے تو اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر شریعت کی تلوار وہاں کے غاصب حکمرانوں کی گردنوں پر رکھنے کا حق پا سکیں۔ لیکن اس جامع تصور کی رو سے اگر دیکھا جائے تو افغانستان کی جانب سے جو دعوے آ رہے ہیں وہ حماقت پر مبنی ہیں۔ اگر طالبان اعلائے کلمۃ اللہ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو پہلے اپنے زیرِ اثر خطہ میں کلمۃ اللہ کا کامل نفاذ دکھانا ہو گا۔ اسلام کا ایک ایسا ریاستی ورژن دکھانا ہو گا جو تہذیب حاضر کی تمام ریاستی اقدار کی تصدیق پر مبنی ہو، تمام سماجی اقدار کی تصدیق پر مبنی ہو، تمام معاشی اقدار کی تصدیق پر مبنی ہو، تمام سفارتی اقدار کی تصدیق پر مبنی ہو، تمام عدالتی اقدار کی تصدیق پر مبنی ہو، تمام تجارتی و اقتصادی اقدار کی تصدیق پر مبنی ہو، تمام معاشرتی اقدار کی تصدیق پر مبنی ہو، تمام عصری علوم و نظامِ تعلیم کی تصدیق پر مبنی ہو، تاکہ پاکستانیوں سمیت دیگر تمام عالمِ اسلام کو بھی معلوم ہو سکے کہ اکیسویں صدی عیسوی میں جدت پر مبنی سائنسی تہذیبی اقدار کی تصدیق کے بعد کلمۃ اللہ کے نفاذ کے بعد ریاستِ اسلامی کی حتمی شکل کیا ہوتی ہے۔
لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ افغانستان میں حدود اللہ کا نفاذ تو یقینی بنایا گیا ہے، لیکن کلمۃ اللہ کے نفاذ کو فقط حدود اللہ کے نفاذ تک محدود سمجھنے کی غلطی کو دوہرایا جا رہا ہے۔ کلمۃ اللہ کے نفاذ کی بنیادی ضروریات میں بنیادی سیاسی اعتقادات، معاشی فلسفہ، فارن پالیسی، دفاعی پالیسی، سماجی پالیسی، آئینی طبقات کا تصور، انتظامی خود مختاری کا تصور، مرکزی حاکمیت کا تصور اور تہذیبی فنون لطیفہ کی تصدیق اور بدرجہ اتم ان کا استعمال شامل ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان ضروریات کو عملی طور پر صورتگر کر کے ہی اسلام کا جدید ریاستی ورژن اقوامِ عالم کے سامنے رکھا جا سکتا ہے جو نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ تمام عالمِ کفر پر اِتمام حجت کیلئے ناگزیر ہے۔ جبکہ افغانستا کی حقیقت اسے کے قطعی برعکس ہے۔ افغانستان کے وار لارڈز شریعت مطہرہ کی روشنی میں جدید تہذیب کی راہنمائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے، بلکہ فقط عسکری ضرب و حرب کے ماہر ہیں جس سے کفر کی حاکمیت کا خاتمہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسلام کا ریاستی ورژن صورتگر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی زندہ مثال خود افغانستان ہے۔ سیاسی بصیرت سے محرومی کا سبب ہی ہے کہ طالبان کی 40 سال پر محیط عسکری جدوجہد بھی افغانستان میں کلمۃ اللہ کے کامل نفاذ میں معاون نہیں بن پائی، کیونکہ وہ تہذیب کی بنیادی تصورات اور اسکی راہنمائی کی خاطر بنیادی ضروریات اور سیاسی اہلیت سے ناواقف ہیں۔ آج بھی افغانستان مغربی سیاسی، سفارتی، مالیاتی، تجارتی، اقتصادی نظام کے تابع ہے اور اپنی سیاسی و انتظامی خود مختاری حاصل کرنے کے باوجود آئینی و معاشی خودمختاری حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ آج بھی تہذیب کی جامع اقدار کی تصدیق کر کے اپنے خطہ میں نافذ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان تمام باتوں کا مقصد طالبان کی اس جدوجہد کی نفی کرنا نہیں ہے جو انہوں نے روس اور امریکی تسلط کے خلاف کی ہے، بلکہ ایک حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ ان کو عکسری مہارت سے کہیں زیادہ سیاسی بصیرت اور تہذیبی اقدار کی تصدیق کے ہنر کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اگر طالبان افغانستان میں کلمۃ اللہ کے نفاذ کی جدوجہد کو راستہ میں چھوڑ کر مسلمان خطوں کے ساتھ الجھنا شروع کر دیں گے تو انکی گزشتہ 40 سال جدوجہد احیائے امت کے مقاصد کی خاطر بے معنی تصور ہو گی اور رائیگاں جائے گی۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے کہ افغانستان کسی بھی مسلم ملک سے الجھے بغیر اپنے خطہ میں تمام جدید تہذیبی اقدار کی تصدیق کر کے نافذ کرتا اور عالمِ اسلام کے لئے ایک مجسم مثال بنتا کہ اسلام آج بھی زندہ قوت ہے جو عالم اسلام کو تمام تر درپیش مسائل کا حل دینے اور تا قیامت تہذیبِ انسانی میں ثقافتی تحریک کی راہنمائی کی قدرت رکھتا ہے۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ اپنی سیاسی و انتظامی خودمختاری حاصل کرنے کے بعد افغانستان کی منہج دوبارہ سیکولرقومی عصبیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ افغانستان میں اسلام کے جدید ریاستی ورژن کے احیاء کے بغیر معمولی تنازعات کو بنیاد بنا کر ہمسایہ ممالک سے الجھنا ماسوائے بے بصیرت تکبر کے کچھ نہیں کہلا سکتا۔ اگر افغانستان کی حکومت امتِ مسلمہ کو درپیش تمام مسائل کے حل کی خاطر ایک جامع قابلِ فہم اور قابلِ عمل ریاستی نظام دینے کے قابل ہو جاتے کلمۃ اللہ کا نام لیکر انہیں کسی مسلم ملک کے ساتھ الجھنے کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ پاکستان میں بھی مسلمان ہی بستے ہیں جن کا نام لیکر وہ افواج کو ناپاک کہ رہے ہیں۔ یہی وہ فوج ہے جس نے حضرت ملا محمد عمر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مدد کی، اور اس کے بعد بھی ہر دور میں پالیسی جو بھی رہی، بین الاقوامی حالات جس تناظر میں بھی گئے درِ پردہ یا سامنے آکر طالبان کی حمایت کی گئی۔ بلکہ طالبان کی نہ صرف حمایت کی گئی بلکہ ان کی عملی طور پر معاونت کی گئی، جس کے سبب ملا محمد عمر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وصیت فرمائی کہ پاکستان کے خلاف گولی نہیں چلانی۔ لیکن افسوس کہ آج ملا محمد عمر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی معاونت کرنے والی فوج کو ناپاک کہا جا رہا ہے جو دلیل ہے کہ پاکستان فوج کو ناپاک کہنے والے ملا محمد عمر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی فکر کے کوسوں دور اور اپنے نفس کے غلام متکبر ہیں۔ مسلم افواج یا کسی بھی ادارے اسے اختلاف اصولوں کی بنیاد پر ہو سکتا ہے، ان کی پالیسیز پر تنقید کی جا سکتی ہے، جو فقط چند اشخاص کی وجہ سے ہوتی ہیں، لیکن ان کے وجود کو نجس یا ناپاک کہنا انتہائی درجہ کی جسارت ہے جس کی ہر سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔ اگر طالبان اپنے اعلائے کلمۃ اللہ کے دعویٰ میں سچے ہیں تو پہلے کلمۃ اللہ کا ریاستی ورژن عوام کے سامنے رکھیں، فوج نے نہ بھی چاہا تو عوام ان کے اس حل کو اپنا لے گی اگر وہ اپنے اندر امتِ مسلمہ کے مسائل کا حل رکھتا ہے۔ اور اگر ان کے پاس امتِ مسلمہ کے مسائل کا حل موجود نہیں ہے تو پھر کم از کم وہ اسلام کے ساتھ اتنا انصاف ضرور کریں کے اپنے تکبر کے زیرِ اثر خواہشاتِ نفس کی جنگ کو اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جہاد نہ کہیں اور اسلام کا لبادہ اتار کر سامنے آ جائیں، وہی کلمہ انہوں نے بھی پڑھا ہے وہی کلمہ راقم نے بھی پڑھا ہے۔
برادران! خاکم بدہن جو صورتحال نظر آ رہی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ بظاہر بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کو الگ کر کے افغانستان اور پاکستان کے مابین ایک بفر سٹیٹ بنانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ضبط کرنے اور ریاستِ پاکستان کو ختم کرنے کی کوئی موثر بہانہ سازی دستیاب آئے۔ لہٰذا اس کی خاطر پورا پروجیکٹ لانچ کیا گیا ہے۔ جو چیز نظر آ رہی ہے وہ یہی ہے کہ خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر کے، اس میں سے کچھ حصہ افغانستان میں ضم کر دیا جائے۔ عالمی سطح پر یہ موقف اپنایا جائے کہ پاکستان کے اثاثے غیر محفوظ ہیں اور اس بہانہ سازی کو موثر انداز میں استعمال کر کے پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے اور بلوچستان اور پختونخواہ کے کچھ علاقہ پر مغربی مینیڈیٹ قبول کروا لیا جائے تاکہ دہشت گردوں کی ایٹمی اثاثوں تک رسائی کو روکنے کیلئے اس میڈیٹڈ علاقے میں ناٹو کی مستقل موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے اوراس طرح ہلاک شدہ امت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا جائے۔ جبکہ دوسری طرف سندھ نیشنلسٹ طبقات کے توسط سے سندھو دیش اور سندھی تہذیب کے نام پر انڈیا سے الحاق کی خاطر بغاوت پر مبنی فساد برپا کیا جائے گا اور شمالی علاقوں میں انڈیا کو فعال کیا جائے۔ اس تمام سازش سے عالمِ مغرب جو ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان کو فقط پنجاب تک محدود کیا جا سکے، اس کے ایٹمی اثاثے ضبط کئے جائیں، ساؤتھ چائنہ سمندر کے بعد چائنہ کی بحیرہ عرب تک رسائی کو محدود کر کے اس کو کنٹرول کیا جائے، روس اور چائنہ کے ممکنہ اتحاد کو بننے سے پہلے غیر فعال کیا جائے، ساؤتھ ایشا میں موجود ایٹمی ریاست سے لاحق خطرہ کو نیوٹرالائز کیا جائے؛؛؛؛ تاکہ جب عالمِ مغرب مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی توسیع کا پروجیکٹ لانچ کرے تو ساؤتھ ایشا کے مسلمان کسی بھی صورت میں کوئی مذاحمت نہ کر پائیں۔ لہٰذا راقم کو یہی نظر آ رہا ہے کہ حالیہ تنازعات جو شروع کئے گئے ہیں ان سے امتِ مسلمہ کے احیاء کی آخری امید کا قطعی خاتمہ یقینی بنایا جا رہا ہے، اور بد قسمتی سے افغانستان کے طالبان اس سازش میں اپنے بے بصیرت تکبر کی وجہ سے شراکتدار بن رہے ہیں۔ لیکن ان شاء اللہ عز و جل مغرب کی یہ سازش اپنے لے پالک صیہونیوں کےساتھ اپنے انجام کو پہنچے گی۔ پاکستان کا حقیقی نقشہ ابھر کردنیا کے سامنے آئے گا جس کا حدود اربعہ عزنی، کابل اور قندھار سے لیکر ٹیکناف بنگلہ دیش تک ہے۔ عنقریب افغانستان پاکستان کے تحت ایک امارت بنے گی اور پاکستان ہی اسلامی ریاست کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور اسلامی ریاست کا مرکز رہے گا۔ دنیادار غافل اس بات سے ناواقف ہیں کہ پاکستان فطرت کے مقاصد کی پاسبان ریاست ہے اور محفوظ قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ حالیہ کشمکش طرفین میں موجود متکبرین کے صفایہ کی خاطر ہے جو اپنے نفس سے مغلوب ہو چکے ہیں۔ ایک طرف وہ متکبر ہیں جنہوں نے اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر حاصل کی گئی ریاستِ پاکستان میں گزشتہ 77 سال تک کفر نافذ کیا اور عالمگیر صیہونیت کی پراکسی بنا کر رکھ دیا۔ جبکہ دوسری طرف وہ متکبر ہیں جنہوں نے 40 سالہ جہاد سے حاصل کرنے والے افغانستان کو دوبارہ سے اسلامی خطوط سے منحرف کرنے کی ناپاک کوشش کی اور اپنے سیکولر قومی تعصب کے ہاتھوں مغلوب ہو کر رہ گئے۔ طرفین سے ان عناصر کا خاتمہ مخلصین کی راہیں ہموار کرے گا اور اسلام اپنی غالب قوت کا اظہار فرمائے گا۔
لہٰذا! عام مسلمان یاد رکھیں کہ پاک افغان سرحد پر حالیہ فساد کا اسلام یا اعلائے کلمۃ اللہ سے قطعی کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ متکبرین کے مابین خواہشِ نفس کی تسکین کی جنگ ہے۔ جس دن اسلام کے حقیقی وارث اسلام کا جدید ریاستی نظام لیکر سامنے آ گئے اس وقت تمام متکبرین کے ناک خاک آلود ہو جائیں گے۔ مستقبل قریب میں ایک ایسی اسلامی ریاست قائم ہو گی جو لاہور، دمشق و مدینہ النبوی ﷺ کے درمیانی علاقہ کو اسلام کا قلعہ بنائے گی، یہی اسلامی نظامِ عالم [خلافت] کے احیاء کی نمائندہ ریاست ہو گی؛ جس کی پہلی اینٹ "پاکستان" ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم بالصواب
Comments
good
By Sheraz on December 29, 2024 12:14 PMAdd a Comment